دو برس میں ادویات کی قیمتوں میں 32 فیصد اضافہ، کیا ڈی ریگولرائزیشن پالیسی برقرار رہے گی؟

اسلام آباد: دو برس کے دوران عام استعمال کی سو سے زیادہ ادویات کی قیمتوں میں اوسطاً 32 فیصد اضافہ ہوا ہے، واضح رہے کہ فروری 2024 میں نگران حکومت نے دوا ساز کمپنیوں کو قیمتیں ازخود مقرر کرنے کی اجازت دی تھی۔

وفاقی وزارت صحت کے حکام کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کرائے گئے آزادانہ قومی سروے میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا ہے، لیکن عوامی غصے کے باوجود ڈی ریگولیشن پالیسی فی الحال واپس لیے جانے کا امکان کم ہے۔

 

حکام کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ وزیر اعظم کریں گے، جو سروے کے مکمل جائزے کے بعد کوئی سیاسی یا انتظامی قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔

 

وزیر اعظم کی ہدایت پر ملک بھر میں کرائے گئے سروے کے مطابق کم از کم 100 غیر ضروری ادویات، جو ڈی ریگولیٹڈ میڈیسن کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں، صرف آٹھ ماہ میں تقریباً ایک تہائی مہنگی ہو چکی ہیں۔ اس سروے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ ڈی ریگولیشن سے عوام کو ادویات مناسب قیمت پر ملی ہیں یا نہیں۔

 

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے سروے نتائج سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل اضافہ “تقریباً 15 فیصد” ہے اور اگر نئی مصنوعات کے اجرا کے باعث ہونے والے تقریباً 3 فیصد اضافے کو نکال دیا جائے تو دو برسوں میں حقیقی اضافہ “صرف 12 فیصد بنتا ہے”۔

 

پرانے فارمولے کے تحت ادویات کی قیمتوں میں سالانہ صرف 7 فیصد تک اضافی ہو سکتا تھا، یعنی دو برس میں زیادہ سے زیادہ 14 فیصد کا اضافہ ممکن تھا، ڈی ریگولیشن کے بعد یہ اضافہ 32 فیصد تک پہنچ گیا۔

 

حکومتی ذرائع کے مطابق اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) کا مؤقف ہے کہ مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے مقابلے میں یہ اضافہ اتنا غیر معمولی نہیں، لیکن حتمی فیصلہ وزیر اعظم ہی کریں گے۔

 

اب تک ڈی ریگولیٹڈ ادویات کا نصف حصہ جانچا جا چکا ہے۔ دوسرے مرحلے میں مزید 50 فیصد ادویات کا جائزہ لیا جائے گا، جس کے بعد سفارشات تیار کر کے حکومت کو دی جائیں گی۔

 

وزارت قومی صحت کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ وزیر اعظم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا ڈی ریگولیشن سے مارکیٹ میں ادویات کی دستیابی بہتر ہوئی یا صرف قیمتیں ہی بڑھ گئیں اور فیصلہ ثبوت کی بنیاد پر ہوگا، اندازوں پر نہیں۔۔

 

فروری 2024 میں جاری کردہ ایس آر او 228(I)/2024 کے ذریعے غیر ضروری ادویات کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول ختم کردیا گیا تھا، جس کا مقصد سرمایہ کاری بڑھانا، پیداوار میں اضافہ اور مارکیٹ میں ادویات کی قلت ختم کرنا تھا۔ لیکن عوامی سطح پر اب اینٹی بایوٹکس، درد کش ادویات اور مستقل بیماریوں کی دوائیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں۔ صوبائی محکموں نے بھی کچھ ادویات کی سپلائی میں کمی کی نشاندہی کی ہے۔

 

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پالیسی فوری طور پر واپس لینے کا کوئی پروگرام نہیں۔ ایس آئی ایف سی کے نزدیک طویل المدتی سرمایہ کاری کے لئے ڈی ریگولیشن ضروری ہے۔

 

ماہرین صحت کا خیال ہے کہ حکومت مکمل خاتمے کے بجائے کوئی نیا ماڈل متعارف کرا سکتی ہے، جس میں مخصوص ادویات کی کیٹگریز پر حد مقرر کرنا یا سخت مانیٹرنگ شامل ہو سکتی ہیں، تاکہ صنعت اور عوام دونوں کا مفاد محفوظ رہ سکے۔

 

سروے ملک بھر کے شہروں میں فارمیسیز، اسپتالوں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ڈیٹا جمع کر رہا ہے اور اس کے مکمل ہونے پر یہ واضح ہو جائے گا کہ ڈی ریگولیشن نے اصلاحات لائیں یا مریضوں کیلئے نئی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔

 

سابق چیئرمین پی پی ایم اے توقیرالحق نے ڈی ریگولیشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی پیداواری لاگت، روپے اور ڈالر میں فرق کے باعث مقامی صنعت بحران میں تھی اور یہ پالیسی بروقت اقدام تھا جس سے پیداوار بحال ہوئی، قلت ختم ہوئی اور جعلی ادویات کا کاروبار کم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب کئی کمپنیاں ڈبلیو ایچ او پری کوالیفکیشن اور PIC/S ایکریڈیٹیشن کے حصول کیلئے کام کر رہی ہیں جس سے ایکسپورٹ اور پاکستان کی ساکھ بہتر ہو رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے