13 منٹ کی موت و حیات کی زندگی، ایس آئی ای ایچ ایس 1122 نے زندگی بچالی

کراچی : 52 سالہ علی اصغر اپنے دفتر میں کام دوران اچانک بے ہوش ہو کر گر پڑا اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی۔ دفتر میں موجود اس کے ساتھی پریشان ہوگئی، ان کے ایک ساتھی نے فوری ور پر ایس آئی ای ایچ ایس 1122 کو کال کی کو چند منٹ میں نثار شہید پارک کے قریب موجود پہنچ گئی۔
ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن عابد اللہ کے مطابق جب ہم نثار شہید پارک کے قریب پہنچے اچانک گھبرائے ہوئے چند افراد ایک بے ہوش ساتھی کو اٹھائے اس طرف دوڑے۔ 52 سالہ علی اصغر دل کی دھڑکن اور سانس کی کوئی رمق نہیں تھی، زندگی جیسے ختم ہو گئی تھی۔
ہماری میڈیکل ٹیم نے فوری طور پر سی پی آر شروع کیا، ایڈرینالین کا انجکشن دیا اور اے ای ڈی کے ذریعے جھٹکا لگایا۔
ہماری یہ کوشش مسلسل 13 منٹ تک جاری رہی اور صبح 9 بج کر 31 منٹ پر مریض کے دل کی دھڑکن بحال ہوگئی۔ ہم علی اصغر کو ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد قومی ادارہ برائے امراضِ قلب منتقل کردیا گیا۔

ای ایم ٹی عابد اللہ کے مطابق مریض کو ایمبولینس میں لایا گیا تو اس کا دل اور سانس دونوں بند تھے۔ بروقت فیصلہ اور تسلسل کے ساتھ سی پی آر ہی زندگی بچانے میں اہم ثابت ہوا۔
مریض سید اصغر علی نے بتایا کہ اس دن وہ معمول کی طرح اپنے آفس پہنچا اور اپنا کام شروع کیا۔

مجھے بلڈ پریشر ہے اور روزانہ اس کی دوا لیتا ہوں اس دن دوا لینا بھول گیا اور ناشتہ بھی نہیں کیا
میری روٹین اچھی نہیں تھی راتوں کو دیر تک جاگنا اور سونا صبح جلدی اٹھنا اور کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اب انہوں نے ڈاکٹر کی ہدایت پر مرغن اور تلی ہوئی اشیاء چھوڑ دی ہیں اپنے لیے وقت نکالتے ہیں روزانہ چہل قدمی کرتے ہیں سبزیاں اور پھل کھا رہا ہوں اور دوا بھی وقت لینا شروع کردی ہے۔
علی اصغر کے دفتر کے ساتھی نے بتایا کہ ہمارے دفتر کے ساتھی کی اچانک طبیعت خراب ہوئی اور وہ گر پڑے، ہم پریشان تھے کہ کیا کریں اچانک 1122 کو کال کا خیال آیا اور یہی اس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا ہماری کال پر چند منٹ میں ایس آئی ای ایچ ایس 1122 کی ایمبولینس باہر موجود تھی جنہیں فورا طبی امداد دی اور کارڈیو لے گئے۔

سندھ انٹیگریٹڈ ایمرجنسی ہیلتھ سروسز کے حکام کا کہنا ہے کہ ادارہ اب تک سندھ بھر میں ایک لاکھ سے زائد کارڈیک ایمرجنسی کیسز نمٹا چکا ہے اور یومیہ کارڈیک ارسیٹ ہونے والے 30 سے زائد مریضوں کو ہنگامی طبی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایمبولینسیں صرف 29 جدید آلات اور ضروری ادویات ہی نہیں لاتی ہیں، بلکہ ایسے تربیت یافتہ پروفیشنلز ساتھ ہوتے ہیں جو ان قیمتی لمحوں میں زندگی کے لیے لڑنا جانتے ہیں۔ نثار شہید پارک کے قریب اس صبح جو کچھ ہوا، وہ صرف ایک زندگی بچانے کا واقعہ نہیں تھا، یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ رسائی، تیاری اور مہارت آج بھی سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اور ایک کھڑی ایمبولینس کیسے موت اور زندگی کے درمیان دیوار بن سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے