کراچی میں ذائقہ دار نکوٹین پاؤچز نوجوانوں کو تیزی سے لت کی طرف دھکیل رہے ہیں: تحقیق

کراچی: کراچی میں کھلے عام فروخت ہونے والے نکوٹین پاؤچز میں ایسے تیار شدہ کیمیائی ذائقے شامل کیے جا رہے ہیں جو نوجوانوں کے لیے انہیں غیر معمولی حد تک پرکشش اور تیزی سے نشہ آور بنا رہے ہیں۔ ایک نئی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان نوجوانوں میں نکوٹین کی ایک نئی اور خاموش لہر کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کے اثرات آنے والے برسوں میں سنگین صحت مسائل کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔

یہ تحقیق جانز ہاپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ٹوبیکو کنٹرول اور پورٹلینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے کی، جس میں کراچی سے خریدے گئے ویلو نکوٹین پاؤچز کی 10 مختلف اقسام کا تفصیلی کیمیائی تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ہر پراڈکٹ میں متعدد ذائقہ پیدا کرنے والے کیمیکلز موجود تھے، جن میں چیری جیسی خوشبو دینے والا بینزائل الکحل، الائچی جیسا ذائقہ دینے والا الفا ٹرپینول اور پودینے جیسا ذائقہ رکھنے والا کاروون شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ذائقے اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچے سمجھے طریقے سے شامل کیے جاتے ہیں تاکہ نکوٹین پاؤچز نوجوانوں اور پہلی بار استعمال کرنے والوں کے لیے زیادہ دلکش بن سکیں۔

بین الاقوامی سائنسی جریدے ٹوبیکو کنٹرول میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ذائقوں کی یہ انجینئرنگ نکوٹین پاؤچز کی مقبولیت بڑھانے کا مرکزی ہتھیار بن چکی ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں ان مصنوعات کے اجزا، فروخت اور تشہیر پر مؤثر نگرانی موجود نہیں۔

نکوٹین پاؤچز چھوٹے، تمباکو سے پاک پیکٹس ہوتے ہیں جن میں پاؤڈر کی شکل میں نکوٹین بھری ہوتی ہے۔ انہیں اوپری ہونٹ اور مسوڑھوں کے درمیان رکھا جاتا ہے، جہاں سے نکوٹین براہ راست خون میں جذب ہو جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں نکوٹین کی تیز خوراک جسم میں داخل ہوتی ہے، جس سے لت لگنے کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ چونکہ ان میں دھواں شامل نہیں ہوتا، اس لیے بہت سے نوجوان انہیں محفوظ سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

محققین نے خبردار کیا ہے کہ یہ تاثر گمراہ کن اور خطرناک ہے، کیونکہ نکوٹین بذات خود ایک انتہائی نشہ آور کیمیکل ہے۔

تحقیق کے مطابق عالمی تمباکو کمپنیاں جنوبی ایشیا میں نکوٹین پاؤچز کی فروخت کو تیزی سے وسعت دے رہی ہیں۔ ویلو برانڈ، جو برٹش امریکن ٹوبیکو کی ملکیت ہے، پاکستان میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔ کمپنی کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا میں ویلو کی تیسری بڑی مارکیٹ ہے، جبکہ 2023 میں اس برانڈ نے اسموک لیس تمباکو، ای سگریٹ اور ہیٹڈ ٹوبیکو مصنوعات کی مجموعی مارکیٹ کا نصف سے زیادہ حصہ حاصل کیا۔

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ کراچی میں دستیاب مختلف نکوٹین پاؤچز میں ذائقوں اور کیمیائی مقداروں میں نمایاں فرق پایا گیا، جسے ماہرین نوجوانوں کی مختلف ترجیحات کو نشانہ بنانے اور نشے کی صلاحیت بڑھانے کی حکمت عملی قرار دیتے ہیں، خصوصاً ان نوجوانوں کے لیے جو کبھی سگریٹ نوشی نہیں کرتے تھے۔

تحقیق کے ایک شریک مصنف کے مطابق، تمباکو اور نکوٹین سے متعلق کئی دہائیوں کی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ ذائقے نوجوانوں کو نکوٹین مصنوعات آزمانے پر آمادہ کرتے ہیں، جس سے نشے کا آغاز تیز اور چھٹکارا کہیں زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔

ملکی سطح پر ہونے والی مطالعات بھی تشویشناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں میں نکوٹین پاؤچز کے بارے میں آگاہی اور استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ ان کے طویل المدت صحت نقصانات کے بارے میں معلومات محدود ہیں۔ بعض تحقیقات کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر دس میں سے ایک نوجوان نکوٹین پاؤچز استعمال کر رہا ہے، اکثر یہ جانے بغیر کہ یہ کتنے نشہ آور ہیں اور ان میں کون سے کیمیکلز شامل ہیں۔

پائیدار ترقی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے سید علی واصف نقوی کا کہنا ہے کہ ذائقہ جاتی کیمیکلز نکوٹین کی لت کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور انہیں پالیسی سطح پر فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو اس نئی لت سے بچایا جا سکے۔

ماہرین صحت خبردار کر رہے ہیں کہ اگر نکوٹین پاؤچز کا پھیلاؤ اسی رفتار سے جاری رہا تو پاکستان کو سگریٹ اور ویپنگ کی طرح ایک اور بڑا صحت بحران درپیش ہو سکتا ہے، جہاں ایک پوری نسل نقصان واضح ہونے سے پہلے ہی نکوٹین کی لت میں مبتلا ہو جائے گی۔

کراچی اور دیگر شہروں میں ذائقہ دار نکوٹین پاؤچز کی تیز رفتار فروخت کے تناظر میں، ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو اس بڑھتی ہوئی لت سے بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کا وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے