آفت زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی تشدد بڑھنے کا خدشہ

اسلام آباد: پاکستان کے سیلاب زدہ اور دیگر آفت سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی تشدد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جہاں ماہرین کے مطابق بروقت حفاظتی اور صحت سے متعلق اقدامات نہ ہونے کی صورت میں کیمپوں، عارضی رہائش گاہوں اور خطرے سے دوچار اضلاع میں یہ مسئلہ ایک سنگین صحت اور ذہنی صحت کے بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات اور اس کے نتیجے میں بے گھر ہونے سے ایسے حالات پیدا یوتے ہیں جن میں خواتین اور بچے جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ کیمپوں میں رش، سماجی تحفظ کے روایتی نظام کا ٹوٹ جانا، بڑھتی غربت اور پولیس و صحت کی سہولیات تک محدود رسائی تشدد کے خطرات کو مزید بڑھا دیتی ہے، جبکہ بیشتر واقعات خوف اور بدنامی کے باعث منظر عام پر ہی نہیں آ پاتے۔

قومی سطح پر دستیاب اعداد و شمار بھی صورتحال کی سنگینی کی نشاندہی کرتے ہیں، جن کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل کے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے، جبکہ نصف سے زیادہ متاثرہ خواتین کسی ادارے یا فرد سے مدد لینے سے گریز کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق آفت زدہ علاقوں میں محفوظ شکایتی نظام کی عدم موجودگی اور سماجی دباؤ کے باعث یہ خطرات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں، خاص طور پر بے گھر خواتین اور بچوں کے لیے۔

ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان کا کہنا ہے کہ آفات کے دوران صحت، تحفظ اور ذہنی صحت کے نظام میں موجود کمزوریاں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ ان کے مطابق سیلاب زدہ اور خطرے سے دوچار اضلاع میں صحت کے مراکز اکثر متاثرہ افراد کے لیے پہلا سہارا ہوتے ہیں، تاہم زیادہ تر مراکز جنسی تشدد سے جڑے ذہنی صدمے کو پہچاننے یا اس سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالات اور بے گھری کے دوران خواتین اور بچے عموماً تشدد کی شکایت درج نہیں کرواتے، لیکن خوف، ذہنی دباؤ اور صدمہ ان کی زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنسی تشدد کو محض ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ صحت عامہ کا مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور ذہنی صحت کی سہولیات کو ہنگامی طبی امداد اور امدادی سرگرمیوں کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے۔

ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے ایک ورکنگ پیپر میں نشاندہی کی گئی ہے کہ آفت زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خطرات کو بڑھانے والے عوامل میں صحت کے مراکز کو پہنچنے والا نقصان، تربیت یافتہ عملے کی کمی، خواتین پولیس اہلکاروں کی عدم موجودگی، کمزور ریفرل سسٹم اور صحت، پولیس اور سماجی بہبود کے اداروں کے درمیان ناقص رابطہ شامل ہے، جبکہ بدلے کے خوف اور سماجی دباؤ کے باعث متاثرہ افراد سامنے آنے سے کتراتے ہیں۔

ورکنگ پیپر میں ان خطرات سے نمٹنے کے لیے صحت کی قیادت میں ایک جامع حکمت عملی تجویز کی گئی ہے، جس میں متاثرین کی بروقت نشاندہی، کمیونٹی سطح پر معاونت، نفسیاتی ابتدائی مدد، ماہرین سے رابطے کے لیے ٹیلی میڈیسن اور کیمپوں و دور دراز علاقوں تک موبائل ہیلتھ یونٹس کی فراہمی شامل ہے۔

پروفیسر شہزاد علی خان نے خبردار کیا کہ واضح اور مربوط ریفرل نظام نہ ہونے کی صورت میں متاثرہ افراد کو ایک ادارے سے دوسرے ادارے کے درمیان گھمایا جاتا ہے، جس سے ان کا ذہنی صدمہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتا ہے۔

سینئر ماہرِ نفسیات پروفیسر اقبال آفریدی کے مطابق آفت زدہ حالات میں جنسی تشدد، اور حتیٰ کہ جنسی تشدد کے خدشے کے اثرات کو بھی اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل ذہنی دباؤ، عدم تحفظ اور بروقت علاج نہ ہونے والا صدمہ ڈپریشن، بے چینی، شدید ذہنی مسائل اور خود کو نقصان پہنچانے جیسے رجحانات کو جنم دے سکتا ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں میں۔

انہوں نے کہا کہ صرف تشدد کا خوف بھی گہرے ذہنی زخم چھوڑ سکتا ہے، جبکہ بروقت ذہنی صحت کی مدد متاثرہ خاندانوں کو حالات سے نکلنے اور طویل مدتی نقصانات سے بچنے میں مدد دے سکتی ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر آفات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں جنسی تشدد کی روک تھام اور ذہنی صحت کو ترجیح نہ دی گئی تو کیمپوں اور متاثرہ علاقوں میں رہنے والی خواتین اور بچے طویل عرصے تک غیر محفوظ رہیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے