گورنر سندھ کی کراچی والوں سے جے ڈی سی، سیلانی کی طرح ریڈ کریسنٹ کے لیے بھی عطیات کی اپیل

کراچی: گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ کراچی کے مخیر حضرات پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے لیے بھی اسی جذبے سے عطیات دیں جیسے وہ دیگر فلاحی اداروں کو دیتے ہیں، کیونکہ ریڈ کریسنٹ بلا امتیاز مذہب، ذات اور مسلک انسانیت کی خدمت کر رہی ہے، جبکہ سندھ مسلسل قدرتی آفات، صحت کے بحران اور سماجی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

وہ پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سندھ برانچ کی 78ویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقدہ ہیومینیٹیرین ڈپلومیسی کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ یہ تقریب انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے سٹی کیمپس میں منعقد ہوئی۔

گورنر کامران ٹیسوری نے کہا کہ کراچی کے لوگ ہر سال اربوں روپے فلاحی اداروں کو دیتے ہیں، لیکن پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کو اس کے کام کے مطابق وہ توجہ اور تعاون نہیں مل رہا جس کی وہ حق دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہری غیر سرکاری تنظیموں کو مجموعی طور پر سالانہ 125 ارب روپے سے زائد عطیات دیتے ہیں، جن میں سیلانی ویلفیئر اور جے ڈی سی جیسے ادارے نمایاں ہیں، لیکن ریڈ کریسنٹ بھی اتنی ہی مضبوط عوامی حمایت کی مستحق ہے کیونکہ یہ مشکل وقت میں متاثرہ انسانوں کی مدد کرتی ہے۔

گورنر سندھ نے کہا کہ پاکستان خصوصاً سندھ کو حالیہ برسوں میں بار بار بڑے پیمانے پر ہنگامی صورتحال کا سامنا رہا ہے، جن میں کووڈ 19 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب شامل ہیں۔
انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ جرمن ریڈ کریسنٹ پاکستان سے اپنا کردار محدود کرنے پر غور کر رہی ہے، جو ایک تشویشناک بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کو دوبارہ متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی وسائل اکٹھے کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ سندھ کے متاثرہ افراد کی بہتر مدد کی جا سکے۔

گورنر ٹیسوری نے پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سندھ کے چیئرمین ریحان ہاشمی اور صوبائی سیکریٹری کنور وسیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ادارہ خواتین رضاکاروں کو آگے لا رہا ہے اور انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں میں ان کے کردار کو وسعت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین تعلیم اور عوامی خدمت کے شعبوں میں تیزی سے قیادت کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

کانفرنس میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے شرکت کی اور صحت، موسمیاتی تبدیلی، آفات سے نمٹنے اور بین الاقوامی انسانی قانون پر چار تکنیکی سیشن منعقد ہوئے۔

تقریب کے مہمانِ اعزاز سندھ کے محتسب سہیل راجپوت نے کہا کہ سندھ ملک کا سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات کا شکار صوبہ ہے، اس کے باوجود ترقیاتی منصوبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے پہلو کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ 2022 کے سیلاب میں تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر ہوئے، جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی واضح مثال ہے۔

سہیل راجپوت نے کہا کہ سندھ ایک دہائی سے زائد عرصے سے شدید موسمی واقعات کا سامنا کر رہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ منصوبہ بندی میں موسمیاتی تبدیلی کو مرکزی حیثیت دی جائے اور مضبوط، محفوظ ڈھانچے تعمیر کیے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے دفتر میں کلائمیٹ اینڈ جسٹس یونٹ قائم کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ امداد کو خیرات نہیں بلکہ شہریوں کا حق سمجھا جانا چاہیے۔

ریڈ کریسنٹ سندھ کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے بتایا کہ ادارہ کمیونٹی سطح پر ردعمل بہتر بنانے کے لیے خواتین پر مشتمل ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس تیار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریڈ کریسنٹ نے 55 کورسز پر مشتمل ایک تربیتی نصاب بھی تیار کیا ہے، جس میں فرسٹ ایڈ، ہنگامی صحت خدمات، آفات سے بچاؤ، موسمیاتی مطابقت اور انسانی اصول شامل ہیں۔

صوبائی سیکریٹری کنور وسیم نے، جنہوں نے کانفرنس کی نظامت بھی کی، شرکا کو ادارے کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ کریسنٹ سندھ نے آفات سے نمٹنے، کمیونٹی بیسڈ رسک ریڈکشن، بلڈ سروسز اور کمزور طبقات کی مدد کے شعبوں میں اپنے کام کو مزید مضبوط کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی سفارت کاری کے ذریعے پالیسی سازوں اور شراکت داروں سے رابطہ رکھا جاتا ہے تاکہ امدادی سرگرمیاں انسانی اصولوں کے مطابق ہوں۔

تکنیکی سیشنز میں ڈی جی سیپا وقار پھلپوٹو نے موسمیاتی تبدیلی سے جڑے انسانی چیلنجز پر بات کی، پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ متقی نے ہنگامی صحت کے معیارات پر روشنی ڈالی، ڈاکٹر منہاج قدوائی نے صحت کے شعبے میں انسانی سفارت کاری پر اظہار خیال کیا، پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی نے آفات سے نمٹنے اور پائیداری پر گفتگو کی، جبکہ ضیاءاللہ رحمانی نے اسلامی تناظر میں بین الاقوامی انسانی قانون پر بات کی۔

سینئر ہیلتھ رپورٹر صحافی محمد وقار بھٹی نے کہا کہ ایک جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ ہنگامی حالات میں درست اور بروقت معلومات میڈیا تک پہنچائیں تاکہ نظر انداز علاقوں تک امداد پہنچ سکے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب، ہیٹ ویوز، زلزلوں اور بیماریوں کے پھیلاؤ کے دوران رپورٹنگ نے بارہا متاثرین کی مشکلات اجاگر کیں، جس کے نتیجے میں خوراک، پانی، ادویات اور پناہ کی فراہمی تیز ہوئی۔

کانفرنس میں آئی ایف آر سی اسلام آباد کے ابوالقادر فرید اور جرمن ریڈ کریسنٹ کے آصف امان نے بھی خطاب کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے