معاشی دباؤ اور عدم استحکام شہریوں میں نفسیاتی مسائل بڑھا رہا ہے،ماہرین آغا خان اسپتال

کراچی: آغا خان اسپتال کے برین اینڈ مائنڈ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ طبی نے کہا ہے کہ معاشی دباؤ، سماجی ناہمواریاں، سیاسی عدم استحکام اور عدم تحفظ جیسے عوامل شہریوں میں نفسیاتی امراض کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا باعث بن رہے ہیں۔

برین اینڈ مائنڈ انسٹیٹیوٹ کی امپلیمینٹیشن سائنٹسٹ فلک مدھانی اور ڈاکٹر فوزیہ ربانی نے کہا کہ معاشی مشکلات اور عدم استحکام کی وجہ سے ملک کے پڑھے لکھے افراد، مزدور اور اسکالرز بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں 10 لاکھ سے زائد مزدور معاشی مجبوریوں کے باعث وطن چھوڑ چکے ہیں۔

میڈیا بریفننگ کے دوران انہوں نے بتایا کہ معاشی دباؤ اور مشکلات کا شکار افراد میں سے 25 فیصد انزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ 2 فیصد ایسے ہوتے ہیں جو خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے خطرناک رجحانات ظاہر کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق طویل المدت جسمانی بیماریوں میں مبتلا افراد بھی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں، تاہم ابتدائی تشخیص اور بروقت علاج سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ ربانی نے کہا کہ ملک میں معاشی دباؤ، سیاسی بے یقینی اور سماجی مسائل کے باعث 30 فیصد بڑی عمر کے افراد، 15 فیصد نوجوان، 20 فیصد نوعمر بچے اور 30 فیصد حاملہ خواتین نفسیاتی دباؤ اور پیری نیٹل ڈس آرڈرز جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کے اپنے نفسیاتی مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
فلک مدھانی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کو اب بھی ایک بدنما داغ (Stigma) سمجھا جاتا ہے، اسی لیے لوگ علاج کرانے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔

ان کے مطابق دیہی علاقوں میں ذہنی صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، لہٰذا لیڈی ہیلتھ ورکرز اور میڈیکل آفیسرز کو اس حوالے سے تربیت دینا ناگزیر ہے۔

ماہرین نے مشورہ دیا کہ اگر کسی بچے کی خوراک کی عادات بدل جائیں، وہ بہت زیادہ سونا شروع کر دے، نہانا یا کپڑے بدلنا چھوڑ دے اور تنہائی اختیار کرے تو والدین کو فوری طور پر کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ بروقت مدد حاصل کی جا سکے۔

دونوں کا کہنا تھا کہ ہجرت اکثر معاشی مشکلات، بے روزگاری، اور 2022 کے سیلاب جیسے موسمی حالات کے درمیان بقا کی حکمت عملی ہوتی ہے جس نے 33 ملین افراد کو بے گھر کر دیاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران 10 ملین سے زائد پاکستانی، جن میں زیادہ تر سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں سے وابستہ افراد شامل ہیں، خلیج تعاون کونسل کے ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں۔
اگرچہ ان کی ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کو برقرار رکھتی ہیں، جس کی رقم تقریباً 1.2 بلین امریکی ڈالر ماہانہ ہے، تاہم، ایک اندازے کے مطابق 70فیصد واپس آنے والے تارکین وطن ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تارکین وطن کام کرنے والوں کو شدید گرمی، کام کے طویل اوقات، اور پرہجوم حالات زندگی کا سامنا ہے، جس سے ان میں ذہنی صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا ۔ایسے افراد اپنے خاندان کی مالی توقعات کا بوجھ اٹھاتے ہیں لیکن روانگی سے پہلے، ملازمت کے دوران، یا گھر واپسی کے بعد دماغی صحت کی جانچ تک رسائی نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ2021 میں 10-29 سال کی عمر کے بچوں میں سے 84فیصد سے زیادہ اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک (LMIC) سے ہوئیں جہاں دنیا کی اکثریتی آبادی رہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے