اسلام آباد: ہمدرد یونیورسٹی میں منعقدہ نیوٹریشن کانفرنس اس وقت شدید تنازع کا شکار ہوگئی جب یونیسف اور اقوامِ متحدہ سے منسلک دیگر عالمی اداروں نے اچانک واک آؤٹ کرتے ہوئے تقریب سے علیحدگی اختیار کر لی۔
ان اداروں کا مؤقف تھا کہ ہال کے باہر لگے ہوئے اسٹالز اور نمایاں کارپوریٹ برانڈنگ واضح طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تجارتی اثر و رسوخ کی عکاسی کر رہے تھے، جو غذائی پالیسی کو کارپوریٹ مفادات کی جانب موڑنے کی کوشش ہے۔

شرکاء کے مطابق جیسے ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بوتھ اور کارپوریٹ لوگو کانفرنس کے احاطے میں نظر آئے، فضا میں بے چینی محسوس ہونے لگی۔ یہ کمپنیاں فارمولہ دودھ، الٹرا پراسیسڈ فوڈ سپلیمنٹس اور میٹھے مشروبات بنانے کے باعث عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کر چکی ہیں اور ماہرین کے نزدیک بریسٹ فیڈنگ کلچر کو نقصان پہنچانے والے تجارتی ماڈلز سے وابستہ ہیں۔
سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے کئی افسران بھی ہال کے ماحول کو دیکھ کر خاموشی سے واپس چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ ریاست جب ایک طرف ماں کے دودھ کے فروغ کی مہم چلا رہی ہے تو پھر انہی کمپنیوں کو سرکاری سطح کے فورمز میں جگہ دینا سنگین تضاد ہے۔

ڈاکٹر ارشاد دانش کا کہنا تھا کہ یہ واضح مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ ماں اور بچے کی غذائیت پر ہونے والی قومی کانفرنس کو ان کمپنیوں کا تشہیری پلیٹ فارم نہیں بننا چاہیے جو فارمولہ دودھ اور پاؤڈرڈ فوڈز کے ذریعے مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھاتی ہیں۔
ایک اور ماہر صحت نے کہا کہ جب کارپوریٹ لوگو کانفرنس میں لگ جاتے ہیں تو بات کمیونٹی فوڈ سسٹمز سے ہٹ کر پیکٹوں اور پروڈکٹ مارکیٹنگ کی طرف چلی جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں پالیسی پر خاموش قبضہ شروع ہوتا ہے۔
یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور نیوٹریشن انٹرنیشنل کے نمائندے بھی کچھ دیر بعد کانفرنس ہال سے باہر جاتے دیکھے گئے۔ ان کے مطابق یہ صرف تکنیکی بات نہیں بلکہ اخلاقی پوزیشن کا معاملہ ہے اور کسی بھی
ادارے کو ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ تجارتی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی (پی این ڈی ایس) کی سیکریٹری جنرل فائزہ خان نے وضاحت کی کہ ہال کے باہر اسٹالز پر آئی سی یو کے لیے مخصوص کلینیکل نیوٹریشن پروڈکٹس رکھی گئی تھیں، جنہیں بریسٹ ملک سبسٹیٹیوٹ کے طور پر پیش نہیں کیا جا رہا تھا۔تاہم پبلک ہیلتھ حلقوں کا کہنا ہے کہ جب وہی گروپس جن کے کاروبار کا بڑا حصہ فارمولہ دودھ اور الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر مشتمل ہے، غذائی فورمز میں جگہ حاصل کر لیتے ہیں تو یہ اثر و رسوخ کی ایک خاموش مگر مؤثر حکمتِ عملی ہوتی ہے۔
اس واقعے کے بعد ماہرین نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں غذائیت کے تمام سرکاری و نیم سرکاری پلیٹ فارمز کے لیے واضح “کانفلکٹ آف انٹرسٹ پالیسی” نافذ کی جائے تاکہ پالیسی سازی کو کارپوریٹ مفادات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ایک سینئر ماہر صحت نے جاتے ہوئے کہاکہ فیصلہ کرنا ہوگا ہم ماؤں کے ساتھ کھڑے ہیں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ، دونوں کے ساتھ ایک ساتھ نہیں چلا جا سکتا۔
