کراچی: کراچی کے گائناکالوجی آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹس میں آنے والی خواتین میں سے 55 فیصد سے زائد میں پی سی او ایس کا مرض پایا گیا ہے، جبکہ ماہرینِ امراضِ نسواں نے خبردار کیا ہے کہ یہ بیماری اب کم عمر اور نو عمر لڑکیوں میں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی بڑی وجوہات موٹاپا، جنک فوڈ کا استعمال، جسمانی سرگرمی کی کمی اور غیر صحت مند طرزِ زندگی ہیں۔
یہ انکشاف ڈسکورنگ پی سی او ایس کے عنوان سے آگاہی اور اسکریننگ مہم کے آغاز کے موقع پر کیا گیا، جہاں ماہرین نے پی سی او ایس کو ایک خاموش مگر تیزی سے پھیلتا ہوا صحتِ عامہ کا مسئلہ قرار دیا جو اب پہلے کے مقابلے میں کم عمر لڑکیوں کو متاثر کر رہا ہے۔
ماہرین نے سول اسپتال کراچی میں ہونے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گائناکالوجی او پی ڈی میں آنے والی 55.4 فیصد خواتین میں پی سی او ایس کی علامات پائی گئیں، جو شہری پاکستان میں اس مرض کے غیر معمولی پھیلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔
طبی ماہرین نے واضح کیا کہ یہ اعداد و شمار قومی شرح نہیں بلکہ اسپتالوں میں سامنے آنے والی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں زیادہ تر مریض تاخیر سے تشخیص کے باعث بیماری کے بگڑے ہوئے مرحلے میں پہنچتے ہیں۔
اس موقع پر فارمیوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد نے کہا کہ اگر پی سی او ایس کی بروقت تشخیص کر لی جائے تو بانجھ پن، ذیابیطس اور دیگر میٹابولک پیچیدگیوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین بہت دیر سے ڈاکٹر کے پاس پہنچتی ہیں، جس کی وجہ سے بیماری شدت اختیار کر لیتی ہے، اس لیے کم عمر لڑکیوں میں ابتدائی اسکریننگ اور آگاہی بے حد ضروری ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حنا حارث نے کہا کہ پی سی او ایس اب صرف بالغ خواتین تک محدود نہیں رہا بلکہ 15 سال سے کم عمر لڑکیوں میں بھی تشخیص ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہارمونل مسائل کے ساتھ آنے والی تقریباً 52 فیصد خواتین میں پی سی او ایس کی علامات پائی جاتی ہیں، جن کی بڑی وجوہات جنک فوڈ، سست طرزِ زندگی اور اسکرین کے زیادہ استعمال سے جڑی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ماہواری کی بے قاعدگی، غیر ضروری وزن میں اضافہ، چہرے یا جسم پر زائد بال اور مہاسے پی سی او ایس کی عام علامات ہیں، اور اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ بانجھ پن کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ ان علامات کو عام نوعمری کے مسائل سمجھ کر نظرانداز نہ کیا جائے۔
بچوں اور نو عمر لڑکیوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس مرض کی عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ سندھ حکومت کے بچوں کے اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر حنا بشیر خان کے مطابق بلوغت کے فوراً بعد لڑکیاں ہارمونل مسائل کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔
انہوں نے اس رجحان کو دیر سے سونے، جسمانی سرگرمی کی کمی اور غیر صحت بخش غذا سے جوڑتے ہوئے کہا کہ مشاہدات کے مطابق پاکستان میں تقریباً 15 فیصد لڑکیاں اور نوجوان خواتین واضح طور پر پی سی او ایس کی علامات رکھتی ہیں۔
ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر شاہین ظفر نے کہا کہ پیچیدگیوں سے بچاؤ کے لیے بروقت تشخیص نہایت اہم ہے، جبکہ موٹاپا اس بیماری کو بڑھانے والا سب سے بڑا عنصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزن میں کمی اور باقاعدہ ورزش کے بغیر طویل المدتی علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
دیگر ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ سوشل میڈیا کے باعث پی سی او ایس سے متعلق آگاہی بڑھی ہے، تاہم شرمندگی اور سماجی دباؤ کے باعث بہت سی لڑکیاں بروقت علاج نہیں کرواتیں۔ ماہرین نے ذہنی دباؤ اور موروثی عوامل کو بھی بیماری کی وجوہات میں شامل قرار دیا۔
ڈاکٹروں نے خبردار کیا کہ خوشحال شہری علاقوں میں بھی پی سی او ایس سے متعلق آگاہی کم ہے، جہاں 16 اور 17 سال کی لڑکیاں ماہواری کے مسائل، موٹاپے اور زائد بالوں کی شکایت کے ساتھ آ رہی ہیں، جبکہ بعض کیسز میں علامات 12 یا 13 سال کی عمر میں ہی ظاہر ہو رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں پی سی او ایس کی شکار تقریباً 70 فیصد خواتین کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں، اور یہی صورتحال پاکستان میں بھی نظر آتی ہے۔
ڈسکورنگ پی سی او ایس مہم کے تحت 10 ملین تولیدی عمر کی خواتین کی اسکریننگ اور ملک بھر میں 100 پی سی او ایس کلینکس قائم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ پروگرام کے مشیر ڈاکٹر مسعود جاوید کے مطابق خواتین کی رہنمائی کے لیے ایک ڈیجیٹل چیٹ بوٹ بھی تیار کیا گیا ہے۔
تقریب کے دوران فارمیوو کے سی ای او سید جمشید احمد اور اینکر و انفلوئنسر سدرہ اقبال کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے، جبکہ سدرہ اقبال کو مہم کی برانڈ ایمبیسیڈر بھی مقرر کیا ہے
کراچی میں55 فیصد سے زائد خواتین میں پی سی او ایس کا شکار نکلیں، کم عمر لڑکیوں میں تیزی سے پھیلنے کا انکشاف
