غزہ؛ مقبوضہ غزہ میں خوراک کی صورتحال میں بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے، کیونکہ شدید بھوک اور غذائی قلت بدستور لاکھوں افراد کو جکڑے ہوئے ہیں اور عالمی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ حالات اب بھی ہنگامی سطح پر ہیں اور معمولی رکاوٹ بھی صورتحال کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کی تازہ رپورٹ کے مطابق 16 لاکھ افراد، یعنی 77 فیصد آبادی، شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ایمرجنسی (فیز 4) میں جبکہ ایک لاکھ چار ہزار افراد انتہائی سنگین حالت (فیز 5) میں تھے۔ اگرچہ اپریل 2026 تک انتہائی سنگین حالت میں کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، مگر مجموعی بحران میں کوئی حقیقی کمی نظر نہیں آتی۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ کاغذی طور پر قحط ٹل جانا انسانی جانوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔ ادارے کے مطابق غذائی قلت کی اصل وجوہات میں تباہ حال صحت کا نظام، آلودہ پانی، ناقص صفائی اور مسلسل بیماریاں شامل ہیں، جن کے باعث بچے اس وقت بھی بھوک کا شکار ہیں جب محدود خوراک دستیاب ہو۔
آئی پی سی کے مطابق اگلے ایک سال میں چھ سے انسٹھ ماہ عمر کے تقریباً ایک لاکھ ایک ہزار بچے غذائی قلت میں مبتلا ہوں گے، جن میں اکتیس ہزار سے زائد بچے شدید ترین غذائی قلت کا شکار ہوں گے، جو بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی دوران تقریباً سینتیس ہزار حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار ہوں گی، جس سے ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بچہ متوازن غذا کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ زیادہ تر خاندان کم غذائیت والی، نشاستہ دار اور پراسیس شدہ خوراک پر زندہ ہیں، جبکہ پروٹین، سبزیاں اور پھل یا تو نایاب ہیں یا عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اسی کے ساتھ اسہال، سانس اور جلدی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، جن کی بنیادی وجوہات گنجان پناہ گاہیں، تباہ شدہ سیوریج نظام اور صاف پانی کی کمی ہیں۔
اگرچہ امدادی اور تجارتی خوراک کی ترسیل میں اضافہ ہوا ہے، مگر رپورٹ کے مطابق یہ امداد ایک خاندان کی ماہانہ ضرورت کے صرف نو دن پورے کرتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ عارضی خوراکی امداد غذائی قلت یا اموات کو نہیں روک سکتی جب تک صحت، صاف پانی اور غذائی خدمات بحال نہ ہوں۔
بحران کو مزید سنگین بنانے والا عنصر بے گھری اور عدم تحفظ ہے۔ 70 فیصد سے زائد آبادی عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہی ہے، جہاں سردی، بارش اور سیلابی صورتحال بیماریوں کے خطرات میں اضافہ کر رہی ہے۔ روزگار کے ذرائع تباہ ہو چکے ہیں، بے روزگاری تقریباً 80 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور خاندان اپنی تمام جمع پونجی کھو چکے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امدادی رسائی میں خلل پڑا تو حالات چند ہفتوں میں دوبارہ قحط کی طرف جا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ بھوک محض خوراک کا مسئلہ نہیں بلکہ صحت کا سنگین بحران ہے، جہاں غذائی قلت، بیماری اور غربت ایک دوسرے کو تقویت دے رہی ہیں۔
امدادی دعووں کے باوجود غزہ میں بھوک کا بحران برقرار، غذائی قلت میں اضافہ، عالمی ادارۂ صحت
