پاکستان میں H3N2 انفلوئنزا تیزی سے پھیلنے لگا، بچوں اور بزرگوں میں نمونیا اور اموات رپورٹ

اسلام آباد: پاکستان میں موسمی فلو کے کیسز میں تیز اضافہ ہو رہا ہے اور قومی ادارہ صحت اسلام آباد نے ملک میں انفلوئنزا A (H3N2) کے فعال پھیلاؤ کی تصدیق کر دی ہے، جس کے بعد بچوں اور بزرگوں میں شدید نمونیا اور فلو سے متعلق اموات سامنے آ رہی ہیں۔
قومی ادارہ صحت اسلام آباد کی لیبارٹری رپورٹس، جو وائٹلز نیوز کو دستیاب ہیں، کے مطابق نومبر کے آخر اور دسمبر کے آغاز میں ایک سے دس سال کی عمر کے بچوں میں متعدد Inf-A/H3 کیسز کی تصدیق ہوئی۔ متاثرہ بچوں میں تیز بخار، مسلسل کھانسی اور سانس میں دقت نمایاں علامات کے طور پر سامنے آئیں، جبکہ کئی مریضوں کا درجہ حرارت چالیس ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا۔
اسلام آباد اور لاہور کے ساتھ سب سے زیادہ بوجھ کراچی میں رپورٹ ہو رہا ہے جہاں آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور دیگر بڑے مراکز میں بچوں میں فلو سے پیدا ہونے والے نمونیا کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق H3N2 پھیپھڑوں میں گہرے انفیکشن کا باعث بنتا ہے، جس کی وجہ سے چھاتی کا بھاری پن، سانس کی تیزی، وہیزنگ اور آکسیجن لیول میں کمی زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
کراچی کے معالجین نے حالیہ ہفتوں میں بچوں کی چند اموات کا تعلق بھی انفلوئنزا A کی پیچیدگیوں سے جوڑا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر کیس میں سب ٹائپ کی تصدیق نہیں ہوتی، مگر کلینکل پیٹرن واضح طور پر اُن برسوں سے ملتا ہے جب H3N2 ڈومینیٹ کرتا ہے۔
ملکی بڑے شہروں کے او پی ڈیز میں بخار، کھانسی اور سینے کے مسائل کے ساتھ آنے والے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کئی مریض H3N2 کے لیے پازیٹو آ رہے ہیں جبکہ کچھ میں علامات وہی ہیں جو اس وائرس سے منسوب کی جاتی ہیں، اگرچہ ٹیسٹنگ محدود ہو۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ تاخیر سے علاج نمونیا اور بیکٹیریل انفیکشن کے خطرات بڑھا رہا ہے۔ اُن کے مطابق پاکستان اس وقت فلو کے سیزن کے عروج میں ہے اور آنے والے ہفتوں میں H3N2 ہی غالب رہنے کا امکان ہے۔
ڈاکٹرز والدین کو مشورہ دے رہے ہیں کہ بیمار بچوں کو اسکول نہ بھیجیں، گھر کا ماحول گرم رکھیں، ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور اگر بچے میں تیز سانس، پسلیاں چلنا، کھانا نہ کھانا یا بخار کم نہ ہو تو فوراً اسپتال سے رجوع کریں۔
قومی ادارہ صحت اسلام آباد نے اسپتالوں کو ہدایت دی ہے کہ فلو ٹیسٹنگ بڑھائی جائے، شدید کیسز پر نظر رکھی جائے اور کسی بھی کلسٹر کو فوری رپورٹ کیا جائے۔ صحتِ عامہ کے ماہرین کے مطابق ویکسینیشن پہلے سے بیمار یا کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والوں کے لیے انتہائی ضروری ہے، جبکہ مناسب آرام، پانی کا استعمال، ہوا کی آمد و رفت اور غیر ضروری اینٹی بائیوٹکس سے گریز صحت یابی کے لیے اہم ہیں۔
حکام نے کہا ہے کہ گھبراہٹ کی نہیں، احتیاط کی ضرورت ہے۔ بروقت تشخیص، ذمہ دارانہ دیکھ بھال اور کمیونٹی کی آگاہی سے زیادہ تر پیچیدگیاں روکی جا سکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے