پاکستان میں 75 فیصد کینسر کے مریضوں کی تشخیص ناقابل علاج مرحلے پر ہوتی ہے: ماہرین کا انتباہ

پاکستان میں 75 فیصد کینسر کے مریض اس وقت تشخیص ہوتے ہیں جب بیماری تیسرے یا چوتھے مرحلے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے، جبکہ صرف تین فیصد مریضوں کی ابتدائی اور قابل علاج مرحلے پر تشخیص ہو پاتی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اکثر خاندان اپنی جمع پونجی اور سامان بیچ کر علاج کراتے ہیں لیکن دیر سے تشخیص کی وجہ سے
جان بچنےکے امکانات انتہائی کم رہ جاتے ہیں

کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے
ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان نے کہا کہ کینسر سے بچاؤ کا دارومدار وقت پر علاج پر ہے۔ چھاتی کے کینسر کے پہلے مرحلے میں بقا کی شرح 99 فیصد ہے اور دوسرے مرحلے میں 90 فیصد، لیکن بعد کے مراحل میں نتائج انتہائی خراب ہو جاتے ہیں۔

تین روزہ کانفرنس سوسائٹی آف میڈیکل آنکولوجی پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہوئی جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے ماہرین، آنکولوجسٹ اور محققین نے شرکت کی اور کینسر کے علاج، امیونو تھراپی اور عوامی صحت کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا۔

پروفیسر شہزاد علی خان نے خبردار کیا کہ یہ مرض جو پہلے امیر طبقے میں زیادہ پایا جاتا تھا، اب غریبوں میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جو علاج کے ناقابل برداشت اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کم عمر افراد میں بھی ظاہر ہو رہا ہے، تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بیرون ملک تیار شدہ دواؤں پر خاطر خواہ اثر نہیں دکھاتا۔

انہوں نے جدید سرکاری کینسر اسپتال کی غیر موجودگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی توانائی کمیشن کے مراکز جامع آنکولوجی خدمات کا متبادل نہیں ہیں۔ ملک میں ہر دس لاکھ افراد کے لیے صرف ایک آنکولوجسٹ موجود ہے اور جب مریض زیادہ تر تیسرے یا چوتھے مرحلے پر پہنچتے ہیں تو آنکولوجسٹ کی تعداد بڑھانے سے بھی نتائج نہیں بدل سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ دیر سے تشخیص کی دو بڑی وجوہات ہیں: عوامی سطح پر آگاہی کی کمی اور نظامی سطح پر تاخیر، جو ناتجربہ کار پرائمری کیئر ڈاکٹروں اور ریفرل میکانزم کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہے۔ ڈاکٹر اکثر مریض کھونے کے خوف سے مشتبہ مریضوں کو ریفر نہیں کرتے اور یوں مریض آنکولوجی مراکز میں اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض ناقابل علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

انہوں نے عوام کو صحت مند طرز زندگی اپنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کی خوراک کینسر پیدا کرنے والی بنتی جا رہی ہے، 90 فیصد پاکستانی ورزش نہیں کرتے، ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے اور نیند کا مسئلہ عام ہو رہا ہے۔ اگر ان مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو کینسر کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔

انہوں نے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کینسر پر سیمینارز کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ غریب مریضوں کے مسائل پر بات کرنے کے لیے مہنگے ہوٹلوں میں اجلاس کرنا منافقت ہے۔ یونیورسٹیاں اور عوامی ادارے ایسے پروگرام منعقد کریں، ہیلتھ سروسز اکیڈمی اس کے لیے جگہ اور رضاکار مفت فراہم کرنے کو تیار ہے۔

دیگر ماہرین نے کہا کہ جب تک آگاہی اور بروقت تشخیص کو عام نہیں کیا جائے گا، مریض تاخیر سے علاج کے باعث مرتے رہیں گے۔ انہوں نے حکومت، طبی اداروں اور سول سوسائٹی سے مؤثر کینسر کیئر ڈھانچہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

ایک اور سیشن میں، جو مقامی دواساز کمپنی فارمیوو کے تعاون سے منعقد ہوا، ماہرین نے پاکستان میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح پر اعداد و شمار پیش کیے۔ انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کے مطابق خواتین میں چھاتی کے کینسر کے کیسز 31 فیصد ہیں، سر اور گلے کے کینسر 8.6 فیصد، پھیپھڑوں کا کینسر 5.6 فیصد اور کولوریکٹل کینسر 5.1 فیصد ہے۔ ناکافی سہولیات اور بھاری اخراجات کی وجہ سے کئی مریض علاج ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

بین الاقوامی ماہرین نے امیونو تھراپی خصوصاً امیون چیک پوائنٹ انہیبیٹرز جیسے پمبریولیزومیب کی افادیت پر روشنی ڈالی جو دنیا بھر میں کیموتھراپی سے زیادہ مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔

ماسکو سٹی کے کلینیکل ریسرچ سینٹر اینڈ کیموتھراپی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر الیا پوکاتیف نے، جو فارمیوو کی دعوت پر شریک ہوئے، بائیو سِمیلر پمبریولیزومیب کے ٹرائل ڈیٹا پیش کیے جس کی افادیت اور معیار اصل دوا کے برابر پائی گئی۔

سیشن کی نظامت ڈاکٹر ایم نعمان ظاہر، ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال، نے کی اور واضح کیا کہ پمبریولیزومیب 24 اقسام کے کینسر میں استعمال ہوتی ہے اور اگر پاکستان میں سستی اور باآسانی دستیاب ہو تو ہزاروں مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

آنکولوجسٹس نے اس نئی دوا کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ جدید علاج تک رسائی نتائج کو بدل سکتی ہے اگر انہیں مقامی نظام میں شامل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ قیمت مسئلہ ہے لیکن شواہد پر مبنی علاج جو پاکستانی مریضوں کے لیے موزوں ہوں، ناگزیر ہیں۔

شرکاء نے اس بات کا اعتراف کیا کہ صنعت کی معاونت سے منعقدہ سائنسی فورمز علاج کے نئے اختیارات متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ عوامی صحت کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں اور ملک بھر کے مریضوں کو دستیاب ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے