پاکستان میں خودکشیوں میں خطرناک اضافہ، روزانہ 55 افراد جان دے رہے ہیں

کراچی: پاکستان میں روزانہ کم از کم 55 افراد اپنی جان لے رہے ہیں، یعنی ہر گھنٹے میں تقریباً دو لوگ اور ہر 26 منٹ بعد ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق زیادہ تر خودکشیاں نوجوانوں میں ہو رہی ہیں اور ان کی بڑی وجہ ذہنی امراض، ڈپریشن اور بارڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر ہیں۔ اصل تعداد اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں خودکشی کے واقعات کم رپورٹ ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں خودکشی کی شرح 2019 سے 2022 کے درمیان 34 فیصد بڑھ گئی ہے اور یہ 7.3 سے بڑھ کر 9.8 فی ایک لاکھ افراد تک جا پہنچی ہے۔

مقامی تحقیق کے مطابق پاکستان سالانہ تقریباً 20 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں جن میں 62 فیصد مرد شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں میں ڈپریشن خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ خواتین میں بارڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر زیادہ دیکھا جاتا ہے جو غیر متوازن جذبات، بے قابو رویوں اور بگڑے ہوئے تعلقات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

اگرچہ اسلام میں خودکشی کو سختی سے منع کیا گیا ہے لیکن غربت، بھوک، ناانصافی اور شدید مایوسی لوگوں کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ تھرپارکر جیسے علاقوں میں بھوک اور غربت سب سے بڑی وجہ ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں خاندانی جھگڑے اور سماجی مسائل اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کزن میرجز کے باعث ذہنی امراض کی شرح میں اضافہ بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ میں کیمیائی تبدیلیاں بھی انسان کو خودکشی پر آمادہ کرتی ہیں۔ زیادہ تناؤ ہارمونی نظام کو خراب کرتا ہے اور دماغ کے ان حصوں کو نقصان پہنچاتا ہے جو فیصلہ سازی اور جذبات پر قابو رکھتے ہیں۔ دماغ میں سیروٹونن کی کمی مایوسی اور خودکشی کے رجحان کو بڑھاتی ہے جبکہ سوزش اور کیمیائی عدم توازن انسان کو مزید کمزور اور بے بس بنا دیتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ بعد ایک خودکشی کی کوشش ہوتی ہے۔ پاکستان میں شرح دنیا کے بعض ممالک کے مقابلے میں کم ضرور ہے لیکن یہ مسئلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس پر خاطر خواہ تحقیق بھی موجود نہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خاندانی جھگڑے، میاں بیوی کے تعلقات میں بگاڑ، علیحدگی، روزگار کے مسائل، امتحان میں ناکامی اور مالی دباؤ بھی بڑی وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کئی جہتوں پر پھیلا ہوا ہے لیکن اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر ابتدائی مرحلے پر ذہنی صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں، عوام میں شعور اجاگر کیا جائے اور ذہنی امراض کے بارے میں بدنامی کو ختم کیا جائے۔

ماہرین نے زور دیا کہ خودکشی قابلِ روک تھام ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر حکمت عملی، فوری سرمایہ کاری اور کمیونٹی کی سطح پر آگاہی کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق یہ انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے جسے عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال سمجھ کر سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے