کتّے کے کاٹنے کے بعد علاج پر پاکستان کا سالانہ 12 ارب روپے سے زائد خرچ

اسلام آباد: کتّے کے کاٹنے کے بعد ریبیز سے بچاؤ کے علاج پر پاکستان ہر سال 12 ارب روپے سے زیادہ خرچ کر رہا ہے، جو تقریباً 43 ملین ڈالر بنتے ہیں، مگر اس بھاری اخراجات کے باوجود ملک میں قابلِ بچاؤ ریبیز سے اموات رپورٹ ہو رہی ہیں، جسے ماہرین روک تھام میں سنگین ناکامی قرار دیتے ہیں۔

صحت کے حکام کے مطابق، ملک میں ہر سال کتّے کے کاٹنے کے بعد علاج کے لیے تقریباً 24 لاکھ خوراکیں اینٹی ریبیز ویکسین اور کم از کم ایک لاکھ 80 ہزار خوراکیں ریبیز امیونوگلوبلین درکار ہوتی ہیں۔ یہ تخمینے سرکاری طور پر رپورٹ ہونے والے کیسز اور عالمی معیار کے علاج کے پروٹوکولز کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی بیماری نگرانی رپورٹس کے مطابق، 2025 کے دوران ملک بھر میں 6 لاکھ سے زائد ڈاگ بائٹ کیسز ریکارڈ کیے گئے، جن میں سندھ اور پنجاب کا حصہ سب سے زیادہ رہا۔ صرف سندھ میں تقریباً 2 لاکھ 84 ہزار کیسز سامنے آئے، جن میں سے لگ بھگ 40 فیصد کراچی سے رپورٹ ہوئے، جو بڑے شہروں میں مسئلے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔

پنجاب وفاقی نگرانی نظام میں ڈاگ بائٹ کیسز رپورٹ نہیں کرتا، تاہم صوبائی اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے آخر تک تقریباً 2 لاکھ 77 ہزار واقعات ریکارڈ کیے گئے، یعنی روزانہ اوسطاً 900 سے زائد افراد کتّے کے کاٹنے کا شکار ہوئے۔ رواں سال پنجاب میں کم از کم آٹھ تصدیق شدہ ریبیز اموات بھی رپورٹ ہوئیں۔

ماہرین صحت کے مطابق، کم آمدنی والے شہری علاقوں اور دیہی علاقوں میں متاثرہ افراد بڑی حد تک رپورٹ نہیں ہوتے۔ کئی لوگ نجی کلینکس یا روایتی علاج پر انحصار کرتے ہیں یا علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں، جس سے اصل بوجھ کہیں زیادہ ہو جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کے تحت، کتّے کے کاٹنے کے بعد ہر مشتبہ مریض کو اینٹی ریبیز ویکسین کی چار خوراکیں دی جاتی ہیں، جبکہ شدید نوعیت کے کیسز میں پہلی ہی وزٹ پر ریبیز امیونوگلوبلین بھی ضروری ہوتی ہے۔ صرف رپورٹ شدہ کیسز کی بنیاد پر ویکسین کی سالانہ ضرورت 24 لاکھ خوراکوں تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ امیونوگلوبلین کی ضرورت ایک لاکھ 80 ہزار خوراکوں کے قریب بنتی ہے۔

سرکاری خریداری کے مطابق، اینٹی ریبیز ویکسین کی فی خوراک قیمت 1200 سے 1500 روپے ہے، جس سے سالانہ ویکسین پر 3 سے 3.6 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ریبیز امیونوگلوبلین کی فی خوراک قیمت 40 سے 50 ہزار روپے تک ہے، جس کے باعث اس مد میں 7.2 سے 9 ارب روپے سالانہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ یوں صرف ان دو مدات پر ہی مجموعی خرچ 10 سے 12.5 ارب روپے سے تجاوز کر جاتا ہے۔

پاکستان میں استعمال ہونے والی زیادہ تر ریبیز ویکسین اور امیونوگلوبلین بھارت اور چین سے درآمد کی جاتی ہیں، جس کے باعث ملک کا انحصار بیرونی سپلائی پر بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اخراجات جانیں تو بچا رہے ہیں، مگر مسئلے کی جڑ کو حل نہیں کر رہے۔

ریبیز نگرانی سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان اربوں روپے کا ایک حصہ بھی آوارہ کتوں کی ویکسینیشن، نس بندی اور کچرے کے بہتر انتظام پر لگایا جائے تو چند برسوں میں کتّے کے کاٹنے کے واقعات نمایاں طور پر کم ہو سکتے ہیں۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جب تک صوبے ہنگامی علاج سے آگے بڑھ کر مؤثر روک تھام کی حکمت عملی اختیار نہیں کرتے، پاکستان ہر سال اربوں روپے خرچ کرتا رہے گا اور ایک مکمل طور پر قابلِ بچاؤ بیماری انسانی جانوں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچاتی رہے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے