اسلام آباد: پاکستان میں تباہ کن مون سون سیلاب صحت کی ہنگامی صورتحال میں بدل گیا ہے، جس کے نتیجے میں ڈینگی، ملیریا اور ہیضے جیسی جان لیوا وباؤں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جبکہ ہزاروں متاثرہ خاندان بے گھر اور کم از کم 68 صحت کے مراکز بری طرح متاثر ہو چکے ہیں، عالمی ادارہ صحت اور مقامی ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے۔
یہ آفت، جس میں اب تک 759 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 186 بچے بھی شامل ہیں، ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں بونیر، باجوڑ، شانگلہ، سوات اور دیر سمیت مختلف اضلاع میں 380 سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔ پنجاب میں 165، سندھ میں 42، گلگت بلتستان میں 45، بلوچستان میں 23، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 22 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ہلاک شدگان میں 458 مرد، 115 خواتین اور 186 بچے شامل ہیں جبکہ 993 افراد زخمی ہوئے جن میں 271 بچے بھی شامل ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں خیبر پختونخوا میں مزید 9 افراد جاں بحق اور 15 زخمی ہوئے۔
ملک بھر میں لگ بھگ 30 ہزار افراد کو 482 ریلیف کیمپوں میں پناہ دی گئی ہے جبکہ ہزاروں لوگ رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بارشوں کے نئے سلسلے کی پیش گوئی نے صورتحال مزید سنگین بنا دی ہے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں ڈینگی کے کیسز چھ ہفتوں میں 28 فیصد بڑھ گئے ہیں اور چارسدہ میں وبا پھوٹ چکی ہے۔ ملیریا کے کیسز جون سے اب تک تقریباً 30 فیصد بڑھ گئے ہیں، جبکہ ہیضے کے کیسز بلوچستان کے خضدار اور سندھ کے شہید بینظیر آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
تباہ شدہ صحت کے ڈھانچے نے ہزاروں لوگوں کو بنیادی طبی سہولتوں سے محروم کر دیا ہے۔ متاثرہ 68 مراکز میں سے 63 جزوی طور پر فعال ہیں جبکہ 5 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جن میں تین خیبر پختونخوا اور دو گلگت بلتستان میں ہیں۔ راستے، پل اور بجلی کے نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے مریضوں کے لیے اسپتال پہنچنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اب تک 18 ہزار 700 سے زائد متاثرین کو ہنگامی میڈیکل کیمپس میں طبی امداد دی گئی ہے لیکن ہزاروں اب بھی بغیر علاج کے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں چھ اضلاع کے سرکاری اسپتالوں میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور بیماریوں کی نگرانی کے لیے خصوصی نظام قائم کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں تین فیلڈ اسپتال قائم کیے گئے ہیں اور 11 کیمپوں میں 3 ہزار سے زائد بے گھر افراد کو پناہ دی گئی ہے۔ پنجاب میں وزارتی کمیٹی، فلڈ کنٹرول سیل اور ادویات کا ذخیرہ تیار کر لیا گیا ہے جبکہ نہروں اور دریاؤں میں نہانے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ہنگامی رسد بھیجتے ہوئے جون سے اب تک 3 لاکھ 80 ہزار مریضوں کے لیے ادویات فراہم کی ہیں۔ صرف پنجاب میں 50 ہزار او آر ایس پیکٹس تقسیم کیے جا رہے ہیں جبکہ حفظان صحت کے کٹس اور مچھر دانیاں متاثرہ صوبوں میں پہنچائی جا رہی ہیں۔
محکمہ صحت اور عالمی ادارہ صحت کی ترجیحات میں موبائل میڈیکل ٹیموں کے ذریعے بلا تعطل علاج، پینے کے محفوظ پانی اور صفائی کی فراہمی، مچھروں کی افزائش کی روک تھام اور خواتین، بچوں، بزرگوں اور معذور افراد کے لیے ہنگامی امداد شامل ہیں۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کے مطابق یہ معاملہ اب صرف سیلاب تک محدود نہیں رہا، پاکستان ایک بڑے صحت عامہ کے المیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔