اسلام آباد: پاکستان میں ہر سال تقریباً 26 ہزار بچے اور نوجوان ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا ہوتے ہیں مگر انسولین کی عدم دستیابی اور بیماری کی بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث 13 ہزار یا تقریباً نصف بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچوں میں سے لگ بھگ ایک چوتھائی اس وقت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جب ان کی بیماری کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی، جبکہ باقی بچوں کی اموات اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کے اہل خانہ روزانہ درکار مہنگی انسولین تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ والدین میں آگاہی کی کمی اور بعض اوقات ابتدائی سطح پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کی جانب سے بروقت تشخیص نہ کیا جانا اس صورتحال کو مزید سنگین بنا رہا ہے، جس کے باعث کئی بچے بے ہوش ہو کر یا کوما کی حالت میں اسپتال لائے جاتے ہیں۔
یہ صورتحال ٹائپ ون ذیابیطس سے متعلق ایک آگاہی تقریب میں سامنے آئی جہاں انسولین پر انحصار کرنے والے مریضوں کے لیے کام کرنے والی فلاحی تنظیم میٹھی زندگی اور فارمیوو کے ڈسکورنگ ڈایابیٹس پراجیکٹ کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس شراکت داری کا مقصد بچوں میں بیماری کی جلد تشخیص، قومی سطح پر مستند ڈیٹا کی تیاری اور علاج و انسولین تک رسائی کو بہتر بنانا ہے۔
میٹھی زندگی کی بانی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ثنا اجمل نے کہا کہ ٹائپ ون ذیابیطس کو پاکستان میں اکثر ٹائپ ٹو ذیابیطس سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک بالکل مختلف اور جان لیوا مرض ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک آٹو امیون بیماری ہے جس میں جسم کا دفاعی نظام لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے اور اس کے بعد بچہ یا نوجوان زندگی بھر انسولین پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لاعلمی اس بیماری میں سب سے بڑی وجہ اموات بن رہی ہے کیونکہ زیادہ تر بچوں کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب ان کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق والدین ابتدائی علامات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور کئی مرتبہ ڈاکٹر بھی شروع میں اس بیماری کو تشخیص نہیں کر پاتے ۔
ڈاکٹر ثنا اجمل کے مطابق شدید تھکن، تیزی سے وزن میں کمی، غیر معمولی پیاس اور بار بار پیشاب آنا ایسی علامات ہیں جنہیں فوری طور پر سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ایسے بچوں کو ماہر ڈاکٹر کے پاس لے جانا ضروری ہے کیونکہ بروقت تشخیص اور انسولین سے جان بچائی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میٹھی زندگی اس وقت ملک کے تقریباً 150 شہروں اور قصبوں میں 1200 کے قریب بچوں کو مفت انسولین فراہم کر رہی ہے لیکن مسئلے کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب بچے ٹائپ ون ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے نصف کو تاخیر سے تشخیص اور انسولین کی عدم دستیابی کے باعث شدید خطرات لاحق ہیں۔
تقریب میں دو ماؤں نے بھی اپنے تجربات بیان کیے جن کی بیٹیوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص اس وقت ہوئی جب وہ اچانک بے ہوش ہو کر کوما میں چلی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بروقت آگاہی اور درست تشخیص ہو جاتی تو ان پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا تھا۔
مفاہمتی یادداشت کے تحت میٹھی زندگی اور ڈسکورنگ ڈایابیٹس پراجیکٹ مل کر ایسے بچوں کی نشاندہی کریں گے جن میں ابھی تک بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی، قومی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور مستحق مریضوں کو علاج اور انسولین کی فراہمی سے جوڑا جائے گا۔ معاہدے پر میٹھی زندگی کی جانب سے ڈاکٹر ثنا اجمل اور فارمیوو کے ڈسکورنگ ڈایابیٹس پراجیکٹ کے پراجیکٹ مینیجر محسن شیراز نے دستخط کیے۔
محسن شیراز نے بتایا کہ فارمیوو گزشتہ پانچ برس سے ایک ڈیجیٹل ذیابیطس آگاہی چیٹ بوٹ چلا رہا ہے جس کے ذریعے لاکھوں افراد رہنمائی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ عرصے میں ٹائپ ون ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ مریضوں اور والدین کی جانب سے مدد کی درخواستوں میں اضافہ ہوا، جس کے بعد اس شراکت داری کی ضرورت محسوس کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس تعاون کے ذریعے ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کی بروقت شناخت، مستند معلومات کی فراہمی اور انہیں طویل المدتی نگہداشت اور انسولین سپورٹ سے جوڑنا ممکن ہو سکے گا جبکہ والدین اور ڈاکٹروں میں آگاہی بڑھانے کے لیے تربیتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جائے گا
