پاکستان میں زیابیطس کے نصف مریض پاؤں میں زخموں اور ٹانگیں کٹنے کے خوف سے ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب کسی مریض کی ٹانگ یا پاؤں کاٹنا پڑتا ہے تو وہ شدید ذہنی بیماری اور خودکشی جیسے خیالات میں گھِر جاتا ہے، صرف شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کی خبر ہی مریض کو ذہنی طور پر بیمار کر دیتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار ملکی اور غیر ملکی ماہرین صحت نے کراچی میں ذیابیطس اور ڈایابیٹک فٹ 2025 کی بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قومی اور بین الاقوامی ماہرین نے کہا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں نفسیاتی دباؤ ایک چھپا ہوا مگر سنگین بحران بنتا جا رہا ہے۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈایابیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی پروفیسر ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ ذیابیطس کے نتیجے میں پیروں کے زخموں میں مبتلا نصف مریض ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب ان کے اعضا کاٹے جاتے ہیں تو یہ ذہنی بیماری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے زخموں کو درجوں میں تقسیم کر کے الگ الگ علاج اور نگہداشت کے منصوبے بنانا ہوں گے۔
دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا کے باعث انفیکشن کے علاج مشکل اور مہنگے ہو رہے ہیں جبکہ نئی ادویات جیسے سیماگلوٹائیڈ کے استعمال میں سستے اور محفوظ بایوسمیولر ورژن کی فوری ضرورت ہے تاکہ مریض طویل عرصے تک دوا استعمال کر سکیں۔
آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر نجم الاسلام نے کہا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں ڈپریشن عام ہے اور بعض اوقات معالجین کو خود دوا تجویز کرنے اور مریضوں کو مشورہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مریض خودکشی کے خیالات ظاہر کرے تو یہ شدید ڈپریشن کی علامت ہے اور فوری کونسلنگ کے بغیر اس کا علاج ممکن نہیں۔
بقائی انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیف الحق نے کہا کہ ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کا واحد راستہ طرزِ زندگی کی تبدیلی ہے جس میں ورزش، متوازن غذا اور وزن پر قابو بنیادی ہتھیار ہیں۔
تنزانیہ کے ڈاکٹر غلام عباس نے کہا کہ افریقی ممالک میں بھی مریضوں کو ایک انگلی کے کٹنے کو قبول کرانا آسان نہیں ہوتا اور مریض نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اس لیے علاج سے قبل مشاورت اور ذہنی تیاری ناگزیر ہے۔
پروفیسر طارق وسیم نے کہا کہ ذیابیطس کی صرف تشخیص ہی مریض کو ڈپریشن میں دھکیل دیتی ہے اور نیورپیتھی جیسی پیچیدگیاں مریض کو برسوں ذہنی دباؤ میں رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خودکشی کے خیالات رکھنے والے مریضوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ ذیابیطس موت کا پروانہ نہیں ہے اور دوا، کونسلنگ اور پندرہ فیصد وزن کم کرنے سے مریض نہ صرف نارمل زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ اپنی حالت کو بہتر بھی کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سومعیہ اقتدار نے کہا کہ بیماری کی بروقت تشخیص، مریضوں کی تعلیم اور عوامی آگاہی مہمات دونوں جسمانی اور ذہنی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے مطابق نئی دوا سیما گلو ٹائڈ کی گولیاں سیما گلوٹائیڈ انجیکشن کے مقابلے میں مؤثر اور کم قیمت متبادل ہے۔
یو اے ای کی ماہر گلناز طارق نے کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کی وبا کی بڑی وجوہات تیز رفتار شہری ترقی، غیر فعال طرزِ زندگی اور روایتی غذا سے ہٹ کر چکنائی اور چینی سے بھرپور کھانوں اور مشروبات کا استعمال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتا ہوا موٹاپا، جنوبی ایشیائی نسل کی جینیاتی کمزوری اور صحت کے کمزور نظام اس بحران کو مزید شدت دے رہے ہیں جبکہ آگاہی کی کمی اور دیر سے تشخیص لاکھوں مریضوں کو پیچیدگیوں تک لاعلم رکھتی ہے۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کراچی کی کچی آبادیوں میں تیس فیصد سے زائد ذیابیطس کے مریض ڈپریشن میں مبتلا ہیں بیس فیصد سے زیادہ خودکشی کے خیالات ظاہر کرتے ہیں اور گیارہ فیصد نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔