پاکستان میں ادویات کے غیر ضروری استعمال سے سالانہ 50 ارب روپے کا نقصان، اینٹی بایوٹکس کے غلط استعمال سے 7 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ ڈریپ سربراہ

کراچی: پاکستان میں ڈاکٹروں کی جانب سے ادویات کے غیر ضروری تجویز کرنے اور کمپنیوں کی غیر اخلاقی مارکیٹنگ کے باعث ملک کو ہر سال 35 سے 50 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جبکہ اینٹی بایوٹکس کے غلط اور زیادہ استعمال سے تقریباً 7 لاکھ افراد ہر سال مختلف بیماریوں کے باعث جاں بحق ہو رہے ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈی آر اے پی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عبیداللہ کے مطابق پاکستان میں 65 فیصد صحت کا خرچ عوام اپنی جیب سے برداشت کرتے ہیں، اور اس کا بڑا حصہ ایسی ادویات پر ضائع ہوتا ہے جن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہ صرف اخلاقی نہیں بلکہ معاشی ناکامی بھی ہے۔

ہیلتھ ایشیا 2025 کانفرنس میں کراچی ایکسپو سینٹر کے دوران "فارما مارکیٹنگ میں تبدیلی: ڈیٹا سے مریض تک اثرات” کے عنوان سے سیشن میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبیداللہ نے کہا کہ دنیا بھر میں فروخت ہونے والی آدھی سے زیادہ ادویات یا تو غلط تجویز کی جاتی ہیں یا غیر اخلاقی انداز میں فروغ دی جاتی ہیں؛اور پاکستان میں بھی صحت کے بجٹ کا 10 سے 25 فیصد حصہ غیر ضروری ادویات کے استعمال پر ضائع ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی بایوٹکس کے بے جا اور غیر ذمہ دارانہ استعمال نے ٹائیفائیڈ، تپ دق اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن جیسی بیماریوں کو تقریباً ناقابل علاج بنا دیا ہے۔ جب دواؤں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو وہ اپنی افادیت کھو دیتی ہیں، مارکیٹ سے نکل جاتی ہیں اور ملک کی برآمدی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ایمپی سلین، سیپروفلوکساسن اور سیفکزم جیسی ادویات اب مزاحمت کا شکار ہو چکی ہیں۔

ڈریپ کے سربراہ نے مزید کہا کہ اخلاقی مارکیٹنگ کاروبار کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی ضمانت ہے۔ آج دنیا میں وہی کمپنیاں کامیاب ہیں جو ضابطوں اور اخلاقی اصولوں پر عمل کر رہی ہیں، کیونکہ عالمی مارکیٹوں تک رسائی کے لیے اخلاقی معیار پر پورا اترنا ضروری ہو گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت، او ای سی ڈی اور ورلڈ بینک کے مطابق اگر ادویات کے درست استعمال پر ایک فیصد سرمایہ کاری کی جائے تو اس سے پانچ سے دس گنا بچت حاصل ہوتی ہے۔ اخلاقیات اعتماد پیدا کرتی ہیں، مارکیٹ کھولتی ہیں اور ترقی کو یقینی بناتی ہیں۔

ڈاکٹر عبیداللہ نے بتایا کہ ڈی آر اے پی کا ایس آر او 1472 (آئی)/2021 ادویات کی اخلاقی تشہیر کے لیے واضح ضابطہ فراہم کرتا ہے، ادارہ جلد ڈیجیٹل آڈٹ، نسخوں کے تجزیے اور عوامی معلومات کے ڈیش بورڈ متعارف کرانے جا رہا ہے تاکہ شفافیت کو فروغ دیا جا سکے۔

فارمیوو کے چیف ایگزیکٹو سید جمشید احمد نے کہا کہ فارما انڈسٹری کا مستقبل اخلاقی مارکیٹنگ سے وابستہ ہے۔ ہمیں اپنی تشہیر کا مرکز مریضوں کی ضروریات بنانا چاہیے، نہ کہ صرف فروخت کے اہداف۔ غیر اخلاقی مارکیٹنگ مریضوں پر بوجھ ڈالتی ہے اور بعض اوقات ان کی جانیں بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

ہیلتھ ایشیا کے آرگنائزر پروفیسر ڈاکٹر ذکی الدین احمد نے کہا کہ ان کا مقصد ہیلتھ ایشیا کو پاکستان کا ’عرب ہیلتھ‘ بنانا ہے جہاں مریضوں، صنعت اور پالیسی سازوں کے درمیان عملی مکالمہ اور تعاون ہو۔

فارمیوو کے منیجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم نے کہا کہ عوام کا اعتماد ڈاکٹروں اور دوا ساز کمپنیوں پر قائم رہنا چاہیے۔ لوگ خوشی سے اسپتال نہیں جاتے بلکہ تکلیف میں جاتے ہیں، اس لیے ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین طاہر اعظم نے کہا کہ دوا ساز صنعت کے لیے مارکیٹنگ ضروری ہے مگر یہ ہمیشہ مریضوں کی بھلائی کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے۔

سابق چیئرمین زاہد سعید اور معروف صحافی فرحان ملک نے بھی ادویات کے درست استعمال اور اخلاقی تشہیر کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ سیشن ہیلتھ ایشیا انٹرنیشنل ایکزیبیشن اور کانفرنس کے 22ویں ایڈیشن کا حصہ تھا، جسے ای کامرس گیٹ وے پاکستان، ڈی آر اے پی اور پی پی ایم اے نے مشترکہ طور پر منعقد کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے