کل میں نے ایک مختصر پیراگراف لکھا تھا جس پر کئی احباب نے تائید اور حوصلہ افزائی کی، لیکن کچھ دوستوں نے ایسے مسائل کی نشاندہی بھی کی جو یقیناً توجہ طلب ہیں، مگر ہمارے اور آپ کے اختیار سے باہر ہیں۔ البتہ ایک ایسا پہلو ضرور ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے، اور وہ ہے اخلاق اور رویہ۔
یقین مانیں، محبت بانٹنے سے کبھی کم نہیں ہوتی، بلکہ بڑھتی ہے۔ مریض کے ساتھ آپ کا نرم لہجہ اور شفیق رویہ اُس کے دکھ کا مرہم بن کر اس کی تکلیف آدھی کر سکتا ہے۔ شفا دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن دل جوئی اور میٹھی بات آپ کے اختیار میں ہے۔
اپنی بات سمجھانے کے لیے دو واقعات بیان کیے دیتا ہوں۔
جناح اسپتال کراچی میں ایک خاتون مقررہ تاریخ اور وقت پر دردِ زہ کے ساتھ گائنی وارڈ پہنچیں۔ نرس کے الفاظ تھے۔
"جاؤ بی بی، ابھی بچہ ہونے میں وقت ہے، باہر بیٹھو”۔
یہ جملہ جس تلخی اور حقارت کے ساتھ کہا گیا، بیان کرنے والا شاید پوری شدت سے بیان نہ کر سکا، مگر اس بیوی کے آنسو بہت کچھ کہہ گئے۔ وہ خاتون تکلیف کے عالم میں باہر بیٹھی رہی، یہاں تک کہ جب پانی کی تھیلی پھٹ گئی تو عجلت میں اُسے لیبر روم لے جایا گیا۔ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد پورا اسٹاف اُسے چھوڑ کر ناشتے پر چلا گیا۔ خاتون کو چادر دینا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔
اسی طرح سوبھراج زچہ و بچہ اسپتال کا ایک واقعہ سنیں۔ ایک خاتون جڑواں بچوں کی ماں بننے والی تھیں۔ پہلا بچہ پیدا ہونے کے بعد نرس نے طنزیہ کہا
” بی بی دوسرا خود چل کر نہیں آئے گا؟ زور لگاؤ۔ اور اتنا رونا آ رہا ہے تو بچہ کیوں پیدا کیا؟”
تکلیف کے وقت ایسے جملے صرف جسم نہیں، روح کو بھی زخمی کر دیتے ہیں۔
گائنی وارڈز میں بعض اوقات رویّے اور فقروں سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی خاتون کسی جرم کی پاداش میں آئی ہو، نہ کہ فطری عملِ زچگی کے لیے۔
چین سے ایک دوست نے پیغام بھیجا کہ اُن کی بہن لاہور کے ایک اسپتال میں گائناکالوجسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خاندان میں کسی خاتون کو زچگی کے لیے اسپتال جانا پڑے تو وہ سختی سے کہتی ہیں
"سرکاری اسپتال مت جانا، ذلت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔”
اب یہ حال سرکاری اسپتال کے ساتھ ساتھ فلاحی اسپتالوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے جبکہ یہ بات مزید حیران کردینے والی ہے کے فلاحی اداروں کا بنیادی مقصد ہی انسان کی مشکل کو آسان کرنا ہے نہ کہ اپنے رویوں سے مریض کی تذلیل کرنا۔
یہ سچائی تلخ ہے، مگر ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ آپ کے پیشے کی عظمت، آپ کے لہجے کی مٹھاس سے اور بھی بلند ہو سکتی ہے۔
یاد رکھیے، محبت اور نرمی صدقہ ہیں اور یہ وہ صدقہ ہے جو نہ ختم ہوتا ہے، نہ تھکتا ہے۔