اسلام آباد: پاکستان کے سب سے بڑے نجی اسپتالوں میں شمار ہونے والے شفا انٹرنیشنل ہسپتال لمیٹڈ نے مالی سال 2025 میں ریکارڈ 2 ارب 23 کروڑ روپے منافع کما کر نئی تاریخ رقم کر دی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 68 فیصد زیادہ ہے۔ اس شاندار مالی کارکردگی نے اسپتال کی ساکھ اور مریضوں کے اعتماد کو اجاگر کیا ہے، تاہم ساتھ ہی علاج معالجے کی بڑھتی ہوئی لاگت پر نئی بحث بھی چھیڑ دی ہے۔
شفا انٹرنیشنل نے اپنے شیئر ہولڈرز کے لیے 5 روپے فی حصص کیش ڈویڈنڈ کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی مالی مضبوطی جدید ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری، ماہر عملے کی خدمات اور طبی سہولیات کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔
اسپتال کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی قسم کے حکومتی گرانٹس یا ٹیکس میں چھوٹ کے بغیر اپنے وسائل سے چلتا ہے اور صرف رواں سال ہی 4 ارب 57 کروڑ روپے کے براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسز ادا کر چکا ہے۔
اسلام آباد میں 6 ہزار سے زائد افراد کو روزگار دینے والا یہ اسپتال 1980 کی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر ظہیر احمد کے وژن کے تحت قائم ہوا اور 1993 میں علاج شروع کیا۔
آج یہ 550 بستروں پر مشتمل چہار سطحی نگہداشت (quaternary care) کا مرکز ہے، جہاں جگر، گردے، بون میرو اور قرنیے کے ٹرانسپلانٹس سمیت جدید ترین علاج کی سہولیات دستیاب ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق اسپتال مختلف فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے بھی اپنی سماجی ذمہ داری نبھا رہا ہے، جن میں مفت طبی کیمپس، بیماریوں سے آگاہی پروگرام اور شفا فاؤنڈیشن کے تحت ہر ماہ چار ہزار مریضوں کو مفت یا رعایتی علاج فراہم کرنا شامل ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ شفا میں علاج کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ عام اور متوسط طبقے کے لیے یہ سہولت عملاً پہنچ سے باہر ہے۔ مریضوں کے مطابق اگرچہ معیار اور سہولتیں عالمی سطح کی ہیں، لیکن ان کی قیمت صرف امیر طبقہ ہی ادا کر سکتا ہے، جبکہ رعایتی علاج کی سہولتیں بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے میں ناکافی ہیں۔
ریکارڈ منافع اور تیز رفتار ترقی شفا انٹرنیشنل کی نجی شعبے میں بالادستی کو تو ظاہر کرتی ہے مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی چھوڑتی ہے کہ کیا پاکستان میں معیاری علاج صرف خوشحال طبقے کا ہی حق بن کر رہ جائے گا؟