ذیابیطس کے مریضوں میں اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے باعث پاؤں کٹنے کے واقعات میں خطرناک اضافہ

کراچی: اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا ذیابیطس کے مریضوں میں پاؤں کے زخموں کو نہ صرف ناقابلِ علاج بنا رہے ہیں ںلکہ علاج کے اخراجات کو کئی گنا بڑھا رہے ہیں اور مریضوں کو ٹانگیں کٹوانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اس بات کا انکشاف ملکی اور غیر ملکی ماہرین صحت نے ہفتے کے روز مقامی ہوٹل میں منعقدہ ’’انٹرنیشنل کانفرنس آن ڈایابیٹس اینڈ ڈایابیٹک فُٹ 2025‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس کے سائنٹیفک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنالوجی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیف الحق نے بتایا کہ پاکستان میں ذیابیطس کے 74 فیصد مریضوں کے پیروں کے زخم ایسے بیکٹیریا سے متاثر ہیں جو عام اینٹی بائیوٹکس سے قابو میں نہیں آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان زخموں کا علاج نہایت مہنگا اور مشکل ہے، اور اکثر اوقات متاثرہ پاؤں یا ٹانگ کاٹنا ہی واحد راستہ بچتا ہے۔

کانفرنس کے مہمان خصوصی اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے سربراہ پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا اسپتالوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔ ’’ذیابیطس کے مریض اعصابی کمزوری کے باعث چھوٹے زخم محسوس نہیں کر پاتے، یہ السر میں بدل جاتے ہیں اور جب ان میں مزاحم بیکٹیریا شامل ہو جائیں تو اکثر ٹانگ کٹنے کے سوا کوئی حل نہیں رہتا،‘‘ انہوں نے خبردار کیا۔

ماہرین نے کہا کہ مقامی طور پر کی گئی متعدد تحقیقات کے مطابق سُوڈوموناس، کلیبسیلا اور ایم آر ایس اے جیسے بیکٹیریا اب عام ہو چکے ہیں اور ہر تین میں سے ایک انفیکشن عام اینٹی بائیوٹکس کے ذریعے قابو نہیں آتا۔ انہوں نے زور دیا کہ بروقت تشخیص، مناسب پاؤں کی نگہداشت اور اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال کے بغیر پاکستان میں ٹانگیں کٹنے کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔

متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی پیروں کے زخموں کی ماہر گلناز طارق نے ڈاکٹروں کو مشورہ دیا کہ وہ اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال کے بجائے جراثیم کُش اسپرے، مرہم اور ڈریسنگ پر زیادہ انحصار کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو آگاہی دینا بھی ضروری ہے تاکہ چھوٹے زخموں کو گھر پر ہی ابتدائی مرحلے میں سنبھالا جا سکے اور وہ خطرناک انفیکشن میں نہ بدلیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی فاؤنڈیشن پاکستانی ڈاکٹروں کے لیے کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پانچ وونڈ کیئر فیلوشپس فراہم کرے گی جن کی مالیت 25 ہزار امریکی ڈالر ہے۔

دیگر بین الاقوامی ماہرین نے بھی بروقت تشخیص اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیا۔ تنزانیہ سے پروفیسر ذوالفقار جی عباس نے کہا کہ نئے آلات کے ذریعے ذیابیطس کے مریضوں میں اعصابی کمزوری (نیوروپیتھی) کو ابتدائی مرحلے میں ہی پہچانا جا سکتا ہے، جس سے السر بننے اور انفیکشن کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

بائڈ کے ڈائریکٹر پروفیسر زاہد میاں نے کہا کہ ذیابیطس پاکستان میں دل کے امراض، گردوں کی ناکامی اور اندھے پن کے ساتھ ساتھ پاؤں کے زخموں اور کٹنے کا سب سے بڑا سبب بن چکی ہے۔ ’’یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی زندگیاں ہیں جو ضائع یا معذور ہو رہی ہیں۔ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو انسانی اور معاشی نقصان میں اضافہ ہوتا رہے گا،‘‘ انہوں نے خبردار کیا۔

لیاقت نیشنل اسپتال کے علی اصغر نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 50 فیصد ذیابیطس کے مریض اپنی بیماری کو قابو میں نہیں رکھ پاتے، حالانکہ علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ ’’جب تک خون میں شوگر کنٹرول نہیں ہوگا، نہ زخم کا علاج ممکن ہے اور نہ اینٹی بائیوٹک حکمتِ عملی کامیاب ہو سکتی ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔

دیگر ماہرین جن میں اٹلی کے پروفیسر رابرٹو انیچینی، لبنان کے ولیم اکیکی، امریکا کی پروفیسر عظمیٰ خان، فرانس کے پروفیسر ایرد سینیویل اور نیدرلینڈز کے پروفیسر وِلبرٹ وان لار شامل تھے، نے بھی ذیابیطس کے مریضوں میں ٹانگ کٹنے سے بچاؤ کے لیے بہترین طریقہ کار اور نئی ٹیکنالوجی پر روشنی ڈالی۔

ڈاکٹروں نے زور دیا کہ صرف بروقت تشخیص، درست پاؤں کی دیکھ بھال اور اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال سے ہی اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے، ورنہ پاکستان میں ٹانگیں کٹنے کے واقعات مزید بڑھ جائیں گے، ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے اور لوگ عمر بھر کی معذوری اور غربت کا شکار رہیں گے۔

کانفرنس اتوار تک جاری رہے گی جس میں ذیابیطس کے مریضوں میں پاؤں کے زخموں اور اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے خلاف مزید حکمتِ عملی پر غور کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے