بورڈ آف گورنرز کے بغیر قومی ادارۂ صحت میں اہم تقرریوں کا عمل شروع

اسلام آباد: قومی ادارۂ صحت (این آئی ایچ) میں قانونی طور پر لازم بورڈ آف گورنرز کی عدم موجودگی کے باوجود وفاقی وزارتِ صحت نے دو اہم اداروں کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی تقرری کا عمل آگے بڑھا دیا ہے اور ان عہدوں کے لیے انٹرویوز بھی کر لیے گئے ہیں۔

حکام کے مطابق ویکسین اینڈ بایولوجیکل پروڈکٹس سینٹر اور سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے لیے انٹرویوز گزشتہ روز وزارتِ قومی صحت خدمات، ضوابط و رابطہ میں ایک ایسے پینل نے کیے جو وزارت کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا۔

تقرریوں کے اس عمل نے سرکاری اور قانونی حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے کیونکہ این آئی ایچ (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 2021 کے تحت ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی نوکریوں کی تشہیر، شارٹ لسٹنگ، انٹرویوز اور تقرری کی سفارش کا اختیار واضح طور پر بورڈ آف گورنرز کو حاصل ہے، جو گزشتہ ڈیڑھ برس سے غیر فعال ہے۔

قانون کے مطابق قومی ادارۂ صحت کے اداروں اور مراکز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا انتخاب شفاف اور میرٹ پر مبنی طریقہ کار کے تحت بورڈ آف گورنرز نے کرنا ہوتا ہے جبکہ حتمی تقرری کے لیے نام وفاقی حکومت کو بھیجے جاتے ہیں۔ ایکٹ میں یہ بھی درج ہے کہ ان اعلیٰ عہدوں کی اسامیاں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بشمول این آئی ایچ اور وزارتِ صحت کی ویب سائٹس پر مشتہر کی جائیں۔

وزارتِ صحت نے دونوں اسامیاں اکتوبر میں مقامی اخبارات میں مشتہر کی تھیں، تاہم سینئر حکام اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بورڈ آف گورنرز کی عدم موجودگی میں اس سطح کی تقرریوں کا عمل قانوناً مکمل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اہلیت، معیار، شارٹ لسٹنگ اور انٹرویوز کا اختیار صرف بورڈ کو حاصل ہے۔

ذرائع کے مطابق ایکٹ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ بورڈ آف گورنرز کو خود شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کے انٹرویوز لینے اور اکثریتی فیصلے کے ذریعے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ این آئی ایچ کے آخری بورڈ کی مدت 2024 کے اوائل میں ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد سے ادارہ بغیر بورڈ کے کام کر رہا ہے۔

ایک سینئر سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانون میں کسی متبادل انتظام کی گنجائش نہیں اور بورڈ کی تشکیل کے بغیر یہ تمام مراحل قانون کے مطابق مکمل نہیں ہو سکتے۔

حکام نے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ان اسامیوں کو بی پی ایس 21 اور چار سالہ مدت کے ساتھ مشتہر کیا گیا ہے جبکہ قانون کے تحت ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی سروس شرائط بورڈ آف گورنرز نے طے کرنی ہوتی ہیں تاکہ اعلیٰ صلاحیت کے حامل افراد کی تقرری ممکن بنائی جا سکے۔

ذرائع کے مطابق اگر ان عہدوں کو عام سرکاری سکیل کے تحت رکھا جائے تو سول سروس کے قواعد لاگو ہوں گے، جبکہ سول سروس سے باہر ماہرین کی تقرری کے لیے انہیں ایم پی سکیل میں تبدیل کرنا اور متعلقہ طریقہ کار اپنانا ضروری ہوگا۔ اس حوالے سے ابہام قانونی اور انتظامی پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی تقرری کا معاملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب قومی ادارۂ صحت کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔ ذرائع کے مطابق مئی میں وفاقی وزارتِ صحت نے کابینہ کو بھیجی گئی وہ سمری واپس لے لی تھی جس میں بورڈ کی تقرری کی سفارش کی گئی تھی، حالانکہ یہ عمل منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں مکمل کیا جا چکا تھا۔

اعلیٰ سطحی سرچ کمیٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی نگرانی میں شفاف عمل کے بعد چھ نام فائنل کیے تھے، جنہیں انٹیلی جنس کلیئرنس کے بعد کابینہ منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا، تاہم سمری واپس لینے سے قومی ادارۂ صحت بدستور بورڈ کے بغیر ہے۔

قانون کے تحت بورڈ آف گورنرز قومی ادارۂ صحت کی پالیسی سازی، بجٹ کی منظوری، تحقیقی ترجیحات، نگرانی، اور ویکسین و بائیولوجیکل مصنوعات کی تیاری سے متعلق امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ بورڈ کی طویل غیر موجودگی سے ادارے میں فیصلوں کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔

وفاقی سیکریٹری صحت سے مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم خبر فائل ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے