ملک جسمانی بیماریوں اور ثقافتی زوال کا شکار ہے، ادب و شاعری جسمانی اور جذباتی صحت میں 50 فیصد بہتری لاتی ہیں، ، شعراء

اسلام آباد: نئی تحقیق کے مطابق شاعری، ادب اور تخلیقی مطالعہ انسان کی جسمانی اور جذباتی صحت میں پچاس فیصد تک بہتری لاتے ہیں اور کردار سازی میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں۔

ماہرینِ ادب اور سینئر شعرا کے مطابق پاکستان جسمانی بیماریوں سے اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک معاشرہ اپنے ثقافتی، جذباتی اور ذہنی بحران سے باہر نہ آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شعر و ادب کو قومی صحت کا لازمی حصہ سمجھنے کا وقت آ چکا ہے۔

معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ جس معاشرے میں ادب اور فنون لطیفہ کمزور پڑ جائیں، وہاں ذہنی اور جسمانی بیماریاں زیادہ مضبوط ہو جاتی ہیں۔” وہ جہاں مسیحا ادبی فورم کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں منعقدہ “شام شعر و سخن” سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر فورم کا ستائیسواں موضوعاتی کیلنڈر بھی پیش کیا گیا۔

تقریب میں راولپنڈی اور اسلام آباد سے ڈاکٹرز، صحت کے ماہرین، اساتذہ، ادیبوں اور فنکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ افتخار عارف، عباس تابش، انعام الحق جاوید اور عبد الرحمان مومن نے کلام پیش کیا، جبکہ حاضرین میں شامل کئی معالجین نے کہا کہ وہ روزانہ دیکھتے ہیں کہ ذہنی دباؤ کیسے دل، شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماریوں کو بڑھا دیتا ہے۔

افتخار عارف نے کہا کہ آج کے دور میں شاعری محض تفریح نہیں بلکہ ذہنی صفائی، غم اور خوف کے اخراج اور انسان کی داخلی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ “شاعری دل کو تازہ کرتی ہے، سانس کو وسعت دیتی ہے اور ذہن میں روشنی پیدا کرتی ہے،” انہوں نے کہا۔

شرکا کے مطابق باقاعدہ مطالعہ جذباتی استحکام میں اضافہ، ہمدردی بڑھانے اور ذہنی لچک پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے عناصر دل کی بیماری، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کے بڑے محرک یعنی اسٹریس کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک میں کئی ملین افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، تقریباً چالیس فیصد کو بلڈ پریشر ہے اور تین کروڑ سے زائد پاکستانی شوگر میں مبتلا ہیں۔

فارمیوو کے سی ای او سید جمشید احمد نے کہا کہ کمپنی نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں زبان، ادب اور تخلیقی اظہار کی سرپرستی اس لیے کی کہ انسانی صحت صرف دواؤں سے بہتر نہیں ہوتی۔ “ہماری موضوعاتی کیلنڈرز کی روایت اسی سوچ کا حصہ ہے کہ معاشرے کی فکری اور تہذیبی صحت بہتر ہوگی تو جسمانی صحت بھی بہتر ہوگی،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں وہ معاشرے ذہنی طور پر زیادہ صحت مند پائے گئے جہاں لوگ پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں اور تخلیقی ماحول سے جڑے رہتے ہیں۔ “جب لوگ پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں تو خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں، اور خوابوں کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرتی۔”

انعام الحق جاوید نے کہا کہ اردو رسم الخط ہماری شناخت ہے اور نئی نسل میں مطالعے کی کمزوری تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال کا کیلنڈر “راز دوام زندگی” انسان کی داخلی تہذیب، کردار سازی اور خودی کی تربیت پر زور دیتا ہے۔

فارمیوو کے ایم ڈی ہارون قاسم نے کہا کہ صحت مند معاشرہ بنانا ان کا ایسا خواب ہے جو انہیں سونے نہیں دیتا۔ “ہم نے بہت کوشش کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آج بھی دائمی بیماریوں میں جکڑا ہوا ہے۔ شوگر نمبر ون بیماری ہے، بلڈ پریشر عام ہے، اور گھر گھر میں کوئی نہ کوئی مریض موجود ہے۔” انہوں نے بتایا کہ فارمیوو کا “ڈسکورنگ ڈائبٹیز” منصوبہ اسی لیے شروع کیا گیا تاکہ لوگ اپنی بیماری کو بروقت جان سکیں اور پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔

دیگر شعرا، اساتذہ اور معالجین نے کہا کہ پاکستانی معاشرے کی بحالی صرف ہسپتالوں اور دواؤں سے نہیں ہوگی، بلکہ مطالعے، فنون، زبان اور ثقافتی ورثے سے دوبارہ جڑنے سے ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعری اور ادب آج بھی ذہنی و جسمانی صحت کے سب سے مضبوط مگر سب سے نظرانداز کیے گئے ذرائع ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے