ڈسکورنگ ڈائبٹیز اور بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبٹالوجی اینڈ انڈوکرائنالوجی کے درمیان معاہدہ

کراچی: ذیابطیس کے بڑھتے کیسز اور ڈائیبیٹک فٹ سے پاؤں کٹنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے ڈسکورنگ ڈائبٹیز اور بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبٹالوجی اینڈ انڈوکرائنالوجی (BIIDE) کے درمیان اہم معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدے کی تقریب میں ڈائریکٹر بائیڈ ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر سیف الحق، ڈسکورنگ ڈائبٹیز کے عبدالصمد اور محمد محسن جبکہ بائیونکس کے انس ریاض شریک ہوئے۔

ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ذیابطیس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ملک میں اس وقت ساڑھے تین کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، جن میں سے 25 سے 30 فیصد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ساڑھے آٹھ کروڑ افراد ڈس گلائیسیمیا کا شکار ہیں جبکہ پیچیدگیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جن میں بینائی، گردوں کے مسائل، دل کی بیماریاں اور ڈائیبیٹک فٹ نمایاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاؤں میں سن ہونے اور زخم بڑھنے پر توجہ نہ دینے سے پاؤں کٹنے تک نوبت آ جاتی ہے، جو نہ صرف مریض بلکہ پورے خاندان کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بروقت علاج سے 80 فیصد کیسز میں ٹانگیں بچائی جا سکتی ہیں۔

ڈسکورنگ ڈائبٹیز نے اعلان کیا کہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی "ڈایا بوٹ” ایپ میں ڈائیبیٹک فٹ سے متعلق سوالات شامل کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے ایسے افراد تک بھی پہنچا جا سکے گا جو اسپتال نہیں آ پاتے۔ اس ایپ کے ذریعے پاؤں کے زخموں کی بروقت نشاندہی ممکن ہو سکے گی۔

عبدالصمد نے کہا کہ 35 لاکھ افراد پاؤں کٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں اور ڈایا بوٹ کے ذریعے ایسے مریضوں کو بائیڈ سے منسلک کیا جائے گا۔ انہوں نے ڈائیبیٹک فٹ کے حوالے سے قومی سطح پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ڈاکٹر سیف الحق نے کہا کہ پاکستان کا پورا صحت کا بجٹ بھی اس وبا پر قابو نہیں پا سکتا، اس لیے احتیاط اور آگاہی ہی واحد راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ آئندہ نسل کو صحت مند مستقبل دیا جا سکے۔

بائیونکس کے انس ریاض نے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مقامی سطح پر کم لاگت میں مصنوعی اعضاء فراہم کیے جا رہے ہیں، جس سے مریضوں کی بحالی کے امکانات بہتر ہو رہے ہیں۔

محمد محسن کا کہنا تھا کہ دس فیصد ایسے افراد ہیں جن کی ٹانگیں بروقت علاج سے بآسانی بچائی جا سکتی ہیں، اور ایپ کے ذریعے ایسے مریضوں تک جلد رسائی ممکن ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے