پاکستان میں 24 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف چار سو دماغی بیماریوں کے ماہرین ہیں، طبی ماہرین

ابوالوریٰ
کراچی: دماغی و اعصابی امراض کے ماہرین کہتے ہیں پاکستان میں دماغی امراض کے ماہرین کی شدید کمی ہے، پاکستان کی نوجوان آبادی میں 15 فیصد کو دماغی بیماریاں لاحق ہیں، جبکہ 24 کروڑ میں سے ڈھائی کروڑ افراد کو دماغی بیماری میں مبتلا ہیں
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسریچ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع نے کہا کہ پاکستان میں کی نوجوان آبادی میں 15 فیصد کو دماغی بیماریاں لاحق ہیں، جبکہ 24 کروڑ میں سے ڈھائی کروڑ افراد مختلف دماغی امراض میں مبتلا ہیں، مریضوں کے مقابلے میں دماغی امراض کے ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں فضائی آلودگی کی وجہ سے صرف پھیپھڑے متاثر نہیں ہوتے بلکہ دماغ بھی متاثر ہوتا ہے۔ ملک بھر میں صرف 400 نیورولوجسٹ دستیاب ہیں، مجموعی طور پر بھی دیگر ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہے۔
عالمی یوم دماغ کی مناسبت سے پریس کانفرنس کے موقع پر نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسریچ فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری پروفیسر عبد المالک اور ڈائو یونیورسٹی کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر واجد جاوید بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی ضلعی اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز میں دماغی و نفسیاتی امراض کا کوئی انفرااسٹکچر موجود نہیں ہے، صحت مند دماغ خوشحالی کی علامت ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دماغی صحت کے فروغ کے لیے حکومت سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے خواتین اور بچے بھی ذہمی صحت کے خطرات سے دوچار ہیں، دوران حمل غذائی کمی، غربت اور معاشرتی اور گھریلو دباؤ کی وجہ سے بچوں کی نوزائدہ کی دماغی نشونما بھی متاثر ہورہی ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے ڈاکٹر واجد جاوید نے بتایا کہ بچوں کی دماغی بیماری کمپیوٹر اور موبائل استعمال کرنے سے بھی متاثر ہورہی ہے۔ ان ماہرین نے بتایا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کی 43 فیصد آبادی کسی نہ کسی نیورلوجیکل بیماری کا شکار ہے، جس گھرمیں بھی دماغی امراض کا ایک مریض بھی موجود ہے اس گھر کے لیے ایک سنجیدہ بیماری اور چیلنج ہوتا ہے۔ سندھ میں ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی قسم کی دماغی بیماری میں مبتلا ہے جس میں ڈپریشن بھی شامل ہے۔
ان ماہرین نے بتایا کہ دماغی امراض کی تشخیص کے لیے پرائمری سطح پر کوئی سہولت اور علاج کے لیے کوئی میکینزم موجود نہیں جبکہ دماغی امراض کے مریضوں کی ادویات بھی مہنگی ہونے کی وجہ سے مریضوں کی دست ترس سے دور ہوگئی ہیں۔
ان ماہرین کا کہنا تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغی امراض جنم لیتے ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں فالج کی بیماری گزشتہ دس سال کے مقابلے میں دوگنا ہوگئی ہے، ملک میں ساڑھے چار لاکھ افراد سالانہ فالج کا شکار ہورہیں جس کی وجہ سے معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
فالج کا مرض بلڈ پریشر بڑھنے کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ کولیسٹرول اور شوگر کی وجہ سے دماغی بیماریوں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ان ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پرائمری سطح پر دماغی امراض کی تشخیص کے لیے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی سمیت ادویات اور دماغی امراض کے ماہرین کی سہولتیں تمام ضلعی اسپتال میں فراہم کی جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے