پاکستان میں خاندانی شادیوں کے باعث جینیاتی امراض کا طوفان، ماہرین نے شادی سے قبل جینیاتی ٹیسٹنگ کا مطالبہ کردیا

لاہور: پاکستان میں نسل در نسل خاندانی شادیاں نایاب جینیاتی امراض کے بوجھ میں خطرناک اضافہ کر رہی ہیں۔ ہر سال لاکھوں بچے نایاب سرطان، دماغی اور اعصابی بیماریوں، پیدائشی دل کے عارضے، تھیلیسیمیا، میٹابولک امراض اور دیگر موروثی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر بغیر تشخیص اور علاج کے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

یہ انکشاف لاہور میں ہفتے کے روز ہونے والی پہلی رئیر اینڈ جینیٹک ڈیزیزز سمٹ 2025 میں قومی و بین الاقوامی ماہرین نے کیا۔

ماہرین نے زور دیا کہ پاکستان میں فوری طور پر خاندانی شادیاں خصوصاً فرسٹ کزنز کے درمیان شادیوں سے قبل جینیاتی ٹیسٹ لازمی قرار دیے جائیں اور قبل از نکاح مشاورت اور بڑے پیمانے پر اسکریننگ شروع کی جائے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان میں 60 فیصد سے زائد شادیاں کزنز میں ہوتی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ شرح 80 فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں 70 فیصد تک ہے، جو بچوں کی اموات کی ایک خاموش وبا کو جنم دے رہی ہے۔

سوسائٹی آف ناول اینڈ رئیر ڈیزیزز (SNARE) کے صدر پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ نایاب امراض تاخیر سے تشخیص، تحقیق کی کمی اور علاج کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ان کے مطابق ان بیماریوں کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے کی ہر کوشش چند بچوں کو ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے اور لاکھوں زندگیاں بچانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ لاہور کے وائس چانسلر اور معروف ماہر امراض قلب پروفیسر مسعود صادق نے کہا کہ کارڈیو مایوپیتھی جیسے دل کے امراض کی جینیاتی بنیاد کو پاکستان میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچانک کم عمری میں دل کا دورہ، دھڑکن کی بے ترتیبی اور بغیر وجہ کے دل کا فیل ہونا اکثر موروثی بیماریوں کی نشانی ہے۔ ان کے مطابق جینیاتی تحقیق ایک مریض کی تشخیص کو پورے خاندان کی حفاظت میں بدل سکتی ہے، اس لیے رجسٹریز اور مشترکہ پروگرام شروع کیے جائیں۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونٹالوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا نے کہا کہ نایاب امراض کے علاج کی لاگت لاکھوں ڈالر تک جا پہنچتی ہے، جسے کم کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کراچی اکتوبر 2026 میں اگلا SNARE اجلاس منعقد کرے گا تاکہ تحقیق، تعاون اور آگاہی کو فروغ دیا جا سکے۔

سائنسی کمیٹی کی سربراہ پروفیسر ہما ارشد چیمہ نے کہا کہ خاندانی شادیوں کے باعث جینیاتی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، ہزاروں خاندان اپنے کئی بچوں کو کھو چکے ہیں مگر اصل وجہ کبھی نہیں جان پاتے۔ ان کے مطابق آگاہی، نوزائیدہ بچوں کی جلد اسکریننگ اور جینیاتی مشاورت ہی واحد راستہ ہے۔

پروفیسر جاعدہ منظور نے پاکستانی بچوں میں موروثی موٹاپے پر بات کی جبکہ پروفیسر شازیہ مقبول نے وضاحت کی کہ جنوبی ایشیائی لوگ جینیاتی طور پر موٹاپے کے لیے زیادہ حساس ہیں۔ پروفیسر آفتاب محسن نے نایاب جگر کے امراض پر روشنی ڈالی۔

بین الاقوامی ماہرین نے کہا کہ قبرص اور ایران جیسے ممالک میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹنگ لازمی قرار دینے کے بعد کیسز نمایاں طور پر کم ہو گئے۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ قومی جینومک ڈیٹا بیس بنایا جائے، ہر بڑے اسپتال میں جینیاتی سہولیات فراہم کی جائیں اور ڈاکٹرز کو جینیاتی مشاورت کی تربیت دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے