کراچی میں آغا خان اسپتال کے ڈاکٹرز نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کے دل کی دھڑکن کے ماہر ڈاکٹر کے ساتھ مل کر چار سال کے بچے کو نئی زندگی دے دی۔ آغاخان اسپتال میں ہونے والے اس آپریشن کے نتیجے میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی (Arrhythmia) میں مبتلا ایک کم سن بچے کی زندگی بچا لی۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے جس میں "سیمپیتھٹک نروز” کاٹ کر دل کی دھڑکن کو نارمل کیا گیا۔
این آئی سی وی ڈی میں دل کی دھڑکن کی بیماریوں کے ماہر الیکٹروفزیالوجسٹ ڈاکٹر محمد محسن نے بتایا کہ یہ تاریخی کامیابی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیماری جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے اور بظاہر دل نارمل نظر آتا ہے، لیکن مریض کی دھڑکن اچانک بہت تیز اور بےترتیب ہو کر جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
متاثرہ ںچہ گزشتہ ڈھائی سال سے ڈاکٹروں زیر علاج تھا۔ ابتدائی علاج اور ڈیوائس لگانے کے باوجود اسے کارڈیک اریسٹ ہوا، لیکن اس کی والدہ نے سی پی آر (CPR) دے کر بچے کو زندہ بچا لیا۔
واضح رہے کہ بچے کی والدہ کو سی پی آر کی تربیت ڈاکٹر محسن نے دی تھی جس نے ہنگامی وقت میں بچے کی زندگی بچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر محسن نے بتایاکہ بچے کی جان کو بار بار لاحق خطرات کے باعث سرجری ناگزیر ہوگئی۔ اس آپریشن میں ریڑھ کی ہڈی سے جڑی وہ نسیں کاٹ دی گئیں جو دل کی دھڑکن کو غیر معمولی تیزی سے بڑھاتی ہیں۔ پروسیجر کے بعد بچے کی دھڑکن نارمل ہوگئی اور گزشتہ 3 ماہ سے وہ صحت مند زندگی گزار رہا ہے۔
بچے کے والد ساجد حسین، جو ملتان سے مزدوری کی غرض سے کراچی آئے تھے، نے بتایا کہ اس سے پہلے ان کے چار بچے اسی بیماری کے باعث انتقال کر چکے تھے۔ اب ان کا چار سالہ بیٹا ایان زندہ بچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کا خرچ چالیس لاکھ بتایا گیا تھا لیکن ڈاکٹروں اور آغاخان اسپتال کی مدد سے یہ مفت مکمل ہوا۔ “ہم ان ڈاکٹروں کو دعا دیتے ہیں جنہوں نے ہمارے بچے کی زندگی بچائی، کیونکہ ہماری اور کوئی اولاد نہیں۔”
آغا خان اسپتال کے شعبہ سرجری کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم اسلام نے بتایا کہ یہ ایک نایاب پیدائشی بیماری ہے۔ مریض کے ای سی جی (Electrocardiogram) میں ایک مخصوص وقفہ بڑھ جانے کی وجہ سے ہارمونز دل پر اثر انداز ہو کر دھڑکن کو بےترتیب کر دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ "ونٹریکولر فیبریلیشن” (Ventricular Fibrillation) تک پہنچ جاتی ہے جو جان لیوا ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ طریقہ علاج پہلی بار 1970 میں امریکا میں کیا گیا تھا، لیکن کٹھن سرجری کے باعث طویل عرصے تک یہ رائج نہ ہوسکا۔ بعد میں اسے لیپروسکوپک انداز میں چھوٹے چیرے لگا کر کیا جانے لگا۔ آج بھی یہ آپریشن دنیا کے چند ہی مراکز میں ہوتا ہے، اور اب پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر محسن کے مطابق، پاکستان میں کزن میرجز اور قریبی رشتہ داروں میں شادیوں کے رجحان کے باعث اس بیماری کے کیسز زیادہ ہوسکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی جامع ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
اس کامیاب سرجری سے ایسے درجنوں مریضوں کو فائدہ ہوگا جنہیں ڈیوائس لگانے کے باوجود بار بار الیکٹرک شاکس لگتے ہیں۔
یہ کامیابی پاکستانی میڈیکل سائنس کے لیے ایک نیا باب ہے اور ہزاروں مریضوں کے لیے امید کی کرن بھی۔